9
نئے افق ،نئے سورج اُگائیں محمد سلیم سالک میں ایک سورج تھا پُر نور ،تابناک اور روشن میں نے اپنی کرنوں کا بیوپار کیا اپنا نور بانٹتا رہا اور اب؟ اور اب میں ایک غار ہوں تاریک ،سرد اور یخ بستہ میرے سینہ میں اندھیروں کا رقص ہوتا ہے اور کوئی بھی میرے درد سے آشنا نہیں کوئی نہیں کوئی نہیں کاش میں نے اپنے لئے بھی تھوڑا سانور تھوڑی سے حرارت اور تھوڑی سی حدت بچا کے رکھی ہوتی! یہ منظوم مکالمہ مرحوم علی محمد لون کے ڈراما ” چِراغ اور سائے “ کی تمہید کے طور پر رقم ہے۔اس مکالمہ سے صاف جھلکتا ہے کہ ایک تخلیق کار کے دل میں ہمیشہ کوئی جذبہ و احساس ضرور ہوتا ہے جس کے اظہار کرنے کے لئے، وہ کبھی ڈراما کے کرداروں کی تشکیل کرتاہے تو کبھی افسانے کے خدو خال ابھارتاہے ۔کبھی ناول کے لامتناہی سمندر میں چھلانگ مارتا ہے،تو کبھی سٹیج کی باریکوں سے دل بہلاتاہے۔اس طرح اپنے تخلیقی سوتوں کو ہمیشہ سیراب رکھتا ہے ۔ جب علی محمد لون نے اپنے تخلیقی سفر کی شروعات کی تو انہوں نے پہلے افسانہ نگاری کو ہی گلے لگایا۔ کیوں کہ اس دور میں ریاست میں افسانہ نگاروں کی ایک بڑی کھیپ موجود تھی جن میں پریم ناتھ پردیسی ،پریم ناتھ در،ٹھاکر پونچھی ،موہن یاور ،اختر محی الدین ،حامدی کاشمیری ،پشکرناتھ ،نور شاہ ،مخمور بدخشی ،عمر مجید وغیرہ سر فہرست تھے ۔اس فہر ست میں اختر محی الدین اور علی محمد لون نے بعد میں کشمیری میں ہی زیادہ افسانے لکھے ۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اختر محی الدین اور علی محمد لون اردو میں ہی طبع آزمائی کرتے تو پورے برصغیر میں افسانوں کے حوالے سے ان کا نام منٹو اور بیدی کے بعد آنے والی نسل میں شمار کیا جاتا۔ اکثر و بیشتر یہ مفروضہ پیش کیا جاتا ہے کہ ریاست کے افسانہ نگاروں میں اردو افسانہ میں کوئی مقام نہیں پاسکا ۔اسی لئے انہوں نے اردو کے بجائے کشمیری میں لکھنے کو ترجیح دی ۔یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ ریاست میں ایسے تخلیق کار موجود تھے جو اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی قبیل کے سرخیل پریم ناتھ در نے جب اپنا افسانہ ” غلط فہمی “ لاہور کے مشہور و معروف ادبی رسالہ ” ادبی دنیا “ کو ارسال کیا ، تو رسالہ کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین نے باضابطہ اپنے اداریہ میں اُن بڑے افسانہ نگاروں کو خبردار کیا جن کو نئے لکھنے والے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔وہ لکھتے ہیں:- ” پریم ناتھ در ہمارے افسانوی افق پر طلوع ہوتے ہی چمک اٹھا ہے اور اگر وہ نوجوان ہے تو پھر ہمارے موجودہ استادوں کو آگے بڑھائے گا اور فن کا پرچم ان دیکھے میدانوں میں جاگاڑے گا “۔ ابھی مولانا صلاح الدین نے پیش گوئی ہی کی تھی کی ” ادبی دنیا“کے اگلے شمارے میں وہ لکھتے ہیں :۔ ” میں نے در کے بارے میں جو پیشین گوئی کی تھی وہ صحیح ثابت ہوگئی ، کہاں ہیں وہ افسانہ نگار جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عظیم افسانے لکھے ہیں وہ آئیں اور دیکھیں افسانے یہ ہوتے ہیں“۔ ان ہی دنوں اختر محی ایدین کا افسانہ ” پونڈرچ “ بین اقوامی شہرت پاچکا تھا ۔علی محمد لون کا پہلا افسانہ ” بچے “ دہلی کے معروف رسالہ ”آجکل “ میں شائع ہوا تھا ۔اسلئے یہ کہنا کہ کشمیری ادیب اُردو میں معیاری ادب لکھنے سے قاصر تھے ایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج نئے لکھنے والے اس طرح کا ادب تخلیق کرنے سے قاصر کیوں ہے ۔اس سلسلے میں یہی کہاجاسکتا ہے کہ ادب انسانی جذبات، احساسات ، خیالات اور تجربات کا خوبصورت اظہارہے ۔ ہرادیب چاہتاہے کہ وہ اپنے خیالات وتجربات کوایسے پیش کرے جیسے پریم چند ،منٹو ،بیدی،کرشن چندر نے پیش کیا ۔جبکہ ان افسانہ نگاروں کے مقام تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک افسانہ نگار زندگی کو قریب سے دیکھے اور پرکھے، تاکہ تجربات میں پختگی ،خیالات میں کشادگی اور جذبات میں پاکیزگی آجائے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک افسانہ نگار اپنے تخلیقی سفر میں کشادہ نظری اور وسعت قلبی سے تخلیقی مدارج طے کرنے کی سعی کرے ۔ جب اس کسوٹی پر مرحوم علی محمد لون کے تخلیقی ادب کو جانچتے ہیں تو وہا ں عملی طور پر ایک زندہ دل ،خوش اسلوب،اور بے باکانہ مطمحِ نظر کے تخلیق کار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ لون صاحب اپنی زندگی کے بارے میں خود رقم طراز ہیں:- ” میں آج تک اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکا کہ اُس زمانے میں ہم خوش حال تھے یا مفلوک الحال ،کبھی کبھار گھر میں کھانے پینے کی افراط رہا کرتی تھی لیکن کبھی دانے دانے کےلئے اِدھر اُدھر دوڑ دھوپ کرنا پڑتی تھی لیکن ایک نہایت سنجیدہ باپ اور ایک بہت ہی پیاری ماں کی موجودگی میں کبھی فاقہ کرنے کی نوبت نہیں آئی ۔۔ ! درگجن کے تاریخی محلہ کے ایک طرف شنکر اچاریہ کی پُر شکوہ پہاڑی سایہ فگن ہے اور دوسری طرف ڈل جھیل اس کے قدموں میں بہہ رہی ہے ۔گردوپیش کی اس خوبصورتی نے میری ذہنی نشوو نما میں کا فی اہم رول ادا کیا ۔میں اکثر جھیل میں نہاتے ہوئے دیکھا گیا ،پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے چراتے ہوئے پکڑا گیا ۔شام کو بلواڑ پر آوارہ گردی کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔اپنی ان نت نئی شراتوں پر میری بے تحاشہ پٹائی ہوتی ۔روز روز کی مار پیٹ نے مجھے سکول سے بددل کردیا ۔میں غیر حاضر رہنے لگا اور پھر ایک دن تو میری تعلیم کا سلسلہ تقریباً ختم ہی ہو چلا۔ہر سال کی طرح اس سال بھی مہارجہ کے جنم دن کے موقع پر ان کا دریائی جلوس نکلنے والا تھا ۔ہم سب لڑکوں کو ندی کے دونوں کناروں پر مہاراجہ بہادر کی جے جے کار کے نعرے لگانے پڑتے تھے ۔لڑکے گلابی رنگ کی پگڑی پہنتے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں لال ہرے رنگ کی جھنڈیاں ہوا کرتی تھیں ۔میں نے بیماری کا بہانہ کرکے جے جے کار کہنے سے نجات تو حاصل کرلی لیکن تماشہ دیکھنے کی لالچ میں ندی کی اور چل دیا۔اچانک اسکول کے ہیڈ ماسٹر غلام محمد شاہ کی نظر مجھ پر پڑی ،دوسرے دن انہوں نے اس بے دردی سے میری مارپیٹ کی کہ میں سب کے دیکھتے دیکھتے کلاس سے کتابیں اُٹھا کر گھر کی طرف چل دیا ۔لیکن پھر دوسرے روز ہیڈ ماسٹر صاحب نے گھر آکر مجھ سے معافی مانگی ۔میرے آنسو نکل پڑے ۔میں پھر سے اسکول جانے لگا ۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے پھر ایک روز مجھ سے کہا ” علی محمدکچھ بھی ہو ،کتابیں پڑھا کرو ،ان میں عقل چھپی ہوتی ہے“۔اس واقعہ نے مجھ پر گہر اثر ڈالا ۔چنانچہ آٹھویں جماعت تک آتے آتے میں نے طلسم ہوش ربا کا بیشتر حصہ ،ڈپٹی نذیر احمد اور شرر کے ناول ،پریم چند اور سدرشن کی کہانیاں سبھی کچھ پڑھ لیا تھا۔کالج میں آنے سے پہلے میں ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے متعارف ہو چکا تھا ۔“ اس اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرحوم علی محمد لون نے زندگی کو کاٹا نہیں بلکہ جیا ہے ،ان کے استاد کا یہ جملہ آج بھی نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے کہ ” علی محمدکچھ بھی ہو ،کتابیں پڑھا کرو ،ان میں عقل چھپی ہوتی ہے “۔ آخر پر پھر لون صاحب کے ڈراما ”چِراغ اور سائے“ کے ایک منظوم مکالمے پر کالم کا اختتام کرتا ہوں:- میرا درد کوئی بھی نہ جانے بس مجھ کو پاگل کہیں پتھر برسائیں لہو لہان کردیں میرے خون کا قطرہ قطرہ چاٹ کر اپنے لئے ایک نئی تبدیلی کا آغاز کریں ایک نئی دنیا کی تعمیر کریں نئے افق ،نئے سورج اُگائیں لیکن میں تنہا ایک غار کی مانند تاریک ،سرد ،یخ بستہ اپنے سپنے میں رقصاں اندھیروں روتی چیختی ہواو ں سے سر پھوڑ لوں ۔