27 دسمبر غالب کی ولادت کی مناسبت سے یا د کیا جاتا ہے ۔غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں اور لاکھوں تقریریں کی گئیں ہیں۔ایسا کیا ہے جو غالب کے کلام کو ایک مرتبہ پڑھتا ہے اس کو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اور لوگوں کی طرح غالب کی مداح سرائی میں زمین و آسمان کی قلابے ملاوں گالیکن ایسا نہیں ہے بلکہ میں حیران ہوں کہ غالب کے پرستاروں اور عاشقوں نے فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں غالب کویکتا ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔
عبدالرحمان چغتائی کے مصورانہ عمل سے کون واقف نہیں ۔انہوں نے غالب کے کچھ منتخب اشعار کو موضوع بناکر ”مرقع چغتائی “ کے نام ۱۹۲۸ میں شائع کیا۔”مرقع چغتائی“ غالب کی نازک خیالی اور مضمون آفرینی کا بے حد خوبصورت مرقع ہے ۔چغتائی نے غالب کے ان اشعارکا انتخاب کیا جو وژول میڈیم میں اپنی معنویت کے ساتھ پوری طرح روشن ہوجاتے ہیں ۔چغتائی کے نزدیک دیوان غالب ایشیائی تہذیب و تمدن اور اس کی روح کا بہترین ترجمان اور عکاس ہے ۔علامہ اقبال نے ۳۰ سالہ مصور عبدالرحمان چغتائی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ۱۱ جولائی ۱۹۲۸ کی تحریر کردہ تقریظ میں لکھا ہے کہ اسلام میں سب کچھ ہے لیکن اس کے فنون ابھی پوری طرح صورت پذیر نہیں ہوئے ہیں ۔نہ موسیقی اور نہ مصوری ،غالب کے عہد آفریں دیوان کا مصور مرقع ہمارے فنون کی آبیاری کرنے میں یقینی طور سے معاون ثابت ہوگا۔ اس مرقع کو نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں کے نام منسوب کرتے ہوئے چغتائی نے دیوان غالب کی ایک مقبول شرح رنگوں کے حوالے سے لکھ کر تفہیم غالب کی ایک نئی راہ کھول دی ۔پاکستان کے مشہور ومعروف مصور صادقین نے غالب کے اشعار کا انتخاب کرکے اپنے مخصوص اسلوب میں ان کی مصورانہ شرح کرڈالی ۔صادقین کے یہاں وہ شعر بھی ہیں جنہیں چغتائی Paintکرچکے تھے لیکن دونوں کی مصورانہ تشریحیں اور treatmentقطعاً مختلف ہیں ۔صادقین کے ”مصورغالب نامے “ کا دیپاچہ فیض احمد فیض نے لکھا تھا ۔صادقین کے غالب نامے کی خوبی یہ ہے کہ صادقین نے اشعار کی کیلی گرافی کرتے ہوئے رنگوں کے حوالے سے ان کی تفہیم کا حق ادا کردیا ہے۔غالب اکادمی کے سرپرست حکیم عبد الحکیم دہلوی نے ہندوستان کے نامی گرامی مصوروں کو غالب کے شعروں کو مصوری کے قالب میںپیش کرنے کی تحریک دی ۔ اس پیش کش میں ملک کے ۳۰ ممتاز مصوروں نے شرکت کی ۔ کشمیر سے غلام رسول سنتوش نے غالب کے مذکورہ شعر کو مصوری کے قالب میںڈھالا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
غالب کی ترجمانی کے مختلف انداز اور طریقوں میں ایک سب سے الگ ،مختلف اور منفردانداز برجندر سیال کا ہے ۔جنہوں نے سنگریزوں اورپتھروں کی زبانی اشعار غالب کی ترجمانی کی ۔سیال کے ان سنگریزوں نے غالب کے ان اشعار کی ایسی تشکیل کی ہے کہ غالب کے اکثرشائقین نے اعتراف کیا ہے کہ غالب کے بہت سے اشعار کا مفہوم صحیح معنوں میں سیال کے ان سنگریزوں کو دیکھ کر ہی ان کی سمجھ میں آتاہے ۔ برجندر سیال اپنے شوق کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں :۔
جب میں 1932میںمشن ہائی سکول گجرات میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا تو مجھے غالب کا نام سننے کا اتفاق ہوا ۔پھر کیا تھا میں غالب کا دیوانہ بن گیا ۔میری دیوانگی کو جلا بخشنے میں میرے استاد مولانا تاجور نجیب آبادی کا بہت دخل ہے وہ غالب کے ایک ایک شعر کی تصویر کشی ایسے کرتے کہ شعر سراپا ڈراما بن کر میرے آنکھوں کے سامنے آجاتا۔سیال صاحب لکھتے ہیں کہ غالب سے اور قریب جانے کا موقعہ رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد زیادہ ہوا۔ بیوی کینسر کے موذی مرض کا شکار ہوئی تو ذہنی تناو کم کرنے کے لئے سمندر کے ساحل پر زیادہ وقت گزرنے لگا ۔یہیں سے سیال کے ان مرقعوں کی کہانی شروع ہوئی جو پھر پتھروں کی شکل میں سامنے آئی۔برجندر سیال کے ایسے ایک سو مرقعوں کا مجموعہ پبلی کیشنز ڈویژن نے تین زبانوں میں شائع کیا۔ اُردو میں ”غالب بہ صد انداز “،انگریزی میں Ghalib:A hundred Moodsاور ہندی میں غالب کے سو انداز کے عنوان سے شایانِ شان انداز میں شائع کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔اس میں اردو اشعار کے اصل متن کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی میں ترجمہ بھی دیا گیا ہے ساتھ ہی بین الاقوامی صوتیات International Phoneticsایک صفحہ پر اوراس کے سامنے کے صفحہ پر برجندر سیال کے مرقعوں کی تصویر دی گئی ہے ۔ورق گردانی کے دوران ایک ایک شعر اور اس سے متعلق مرقعے کو گھنٹوں دیکھتے رہنے کی خواہش رہتی ہے ۔ مجسمہ سازوں نے بھی غالب کی شخصیت سے متاثر ہو کر اپنے فن کا مظاہر ہ کیا ۔جس کی جیتی جاگتی مثال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے آرٹ فیکلٹی کے سامنے موجود ہے ۔یہ مجسمہ پروفیسر محمد مجیب کی نگرانی میں تراشا گیا ہے ۔
ٹی وی اورتھیٹر کے حوالے سے بھی مرزا غالب کی زندگی کواجاگر کیا گیا ۔ گلزار کے لکھے ہوئے سیریل ” مرزا غالب “ کو کون بھول سکتا ہے ،نصیر الدین شاہ کی اداکاری اور جگجیت سنگھ کی گلوکاری نے اس سیریل میں چارچاند لگائے ہیں۔اس کے علاوہ کئی ڈرامے اور ناٹک لکھے گئے جو بہت ہی پسند کئے گئے جن میں سید محمد مہدی (غالب کون ہے )،محمد حسن (کہرے کا چاند) سید مرتضیٰ حسین بلگرامی (مکالمہ غالب)،ابرار الرحمان قدوائی (تصویر ِ خیال)، ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ(دود چراغ محفل)،محمد عبد الطیف خان(پیکر غالب)،اظہر افسر (غالب چچا)،سریندر چترویدی (نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا )،نیر مسعود(رہرو تفتہ) ،اے آر کاردار(غالب کی واپسی )اورحبیب تنویر ( میرے بعد)قابل ذکر ہیں ۔
تھیٹر کے ساتھ ساتھ رقص میں بھی غالب کی غزلوں کی گونج سنائی دیتی ہے ۔مشہور رقاصہ اوما شرما نے غالب کے اشعار پر مخصوص قسم کا رقص کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ۔ اوما شرما کا ماننا ہے کہ رقص میںTextکا اظہار ابھینے کے ذریعے ہوتا ہے اور ہاتھوں اور چہرے کے اتار چڑاو کے ذریعے Textکی ترسیل کی جاتی ہے لیکن کتھک میں کلائی کا ایک لوچ یا اچٹتی سی ایک نظر بھی معنی کی ترسیل کے لئے کافی ہے ،جذبات اور احساسات کتھک کے رقاص کے صرف چہرے اور آنکھوں سے ہی نہیں جھلکتا بلکہ جسم کا روم روم مستی کے آغوش میں چلا جاتا ہے ۔ غالب میری سائیکی کا حصہ بن چکے ہیں اس لئے جب بھی مجھے رقص کا موقعہ ملتا ہے تو مجھے غالب کے اشعار خود بخود ناچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔غزل گائیکی میں جگجیت سنگھ نے جو نام کمایا اس میں غالب کابڑا دخل ہے ۔ انہوں نے غالب کی غزلوں کو اپنے مخصوص انداز میں گایا ہے۔جگجیت سنگھ اس بات کا اعتراف کھلے دل سے کرتے ہیں کہ غالب کی غزل اور اس کی لفظیات ہمیں سُر کا گیان دیتی ہے اور لمحہ بھر کے توقف کے بعد سُر غالب کی غزل کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اگر لفظ پر گلوکار کی صحیح گرفت نہ ہو تو پھر سُر سچا نہیں لگتا ۔جگجیت سنگھ کی طرح کئی گلوکاروں نے غالب کی غزلوں کو بہت خوبصورت اور منفرد انداز میں گایا ہے جن میں بیگم اختر ،طلعت محمود ،غلام علی،برکت علی،مہدی حسن قابل ذکر ہیں ۔