۔ہر انسان فطری طور پر خوبصورتی کو پسند کرتا ہے کیوں کہ خدا نے انسان کو ایک خوبصورت روح کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ہر زمانے اور ہر دور میں خوبصورتی کی طرف انسان زیادہ متوجہ ہے یہی وجہ سے کہ وادی کشمیر کی طرف ملک اور بیرون ممالک کے لوگ کھینچے چلے آتے ہیں ۔ وادی کشمیر کی خوبصورتی کو دیکھنے کےلئے بڑے بڑے سکالر آئے ہیں اور اپنا وقت یہاں گزارا ہے جن میں خاص طور پر الیگزینڈر ، اہوک اور شنکر آچاریہ قابل ذکر ہے جنہوں نے کشمیر کو اپنا مسکن بنایا ہے ۔ مغرب والے وادی کشمیر کو ایشاءکا سوئزر لینڈ کہتے ہیں ۔ یہاں کے خوبصورت آبشار ، ہری بھری وادیاں ، صاف و شفاف نہریں کسی جنت کے نظارے سے کم نہیں ہے تبھی تو شاعروں نے اس خطے کودنیا کا جنت قراردیا ہے ۔ بہت سے مذاہب کو ماننے والے حکمرانوں نے کشمیر کو فتح کیا اور یہاں پر مسکن بناڈالا۔ یہاں کی ملی جلی ثقافت اور تہذیب دنیا بھر میں منفرد مانی جاتی ہے ۔
اگر ہم اس ہمالیائی خطے کے نام کی بات کریں تو اس خطے کشمیر کے نام کے پیچھے ایک تاریخ ہے یونہی اس جنت بے نذیر کو کشمیر کا نام نہیں پڑا ہے ۔ وادی کشمیر کی قدیم تواریخ جس کو عرف عام میں راج ترنگنی کہتے ہیں میں اس کا ذکر ہے جس کے مطابق ایک سادھو بابا تھے جن کا نام کشپ ریشی تھا انہوں نے یہاں پر لوگوں کو بسانے کےلئے پہاڑی سلسلہ کو کھود کر جھیل نکالی اور یہاں پر لوگوں کو آباد کیا ۔ اس کے علاوہ ایک اور روایت یہ ہے کہ اس ریشی کانام کشیا میر تھا جس نے یہاں پر جھیل نکالی اور اس خطے کا نام ان کے نام پر رہا جس کو کشیا میر کی جگہ کہتے تھے اور دھیرے دھیرے کشیا میر کو کشمیر کہا جانے لگا ۔ کشپ ریشی شیو مت کے پیروکار تھے جنہوں نے یہاں پر اپنے پیروکاروں کو بسایا ۔ اس کے بعد شہنشاہ اشوک نے بدھ مت کو وادی لایا اور بدھ مت کا مذہب یہاں پر کافی پھل پھول گیا ۔ کشمیر عالموں، تاجروں کے لیے برصغیر کا ایک بڑا راستہ تھا، اسی طرح درہ خیبر کے پار سے کشمیر میں مسلمان پہلی بار نمودار ہوئے۔ شاہ میر نے پہلا مسلم خاندان سلطان خاندان قائم کیا جس نے وادی میں اسلام کو ممتاز مذہب بنایا جس کے بعد درانی سلطنت نے اسے جبر سے نافذ کیا حالانکہ سکھوں کی حکومت تھی اور بعد میں ڈوگرہ راج لیکن مسلمانوں نے اپنے علم کی وجہ سے بڑے مذہبی گروہ ہندوو¿ں کو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کو غیر مسلح کیا۔
کشمیر ہمالیہ کے عظیم سلسلے اور پیر پنجال پہاڑی سلسلے کے درمیان ایک وادی ہے۔ کشمیر خوبصورت سادگی اور قدرتی خوبصورتی کی جگہ ہے۔ کشمیر ایک منفرد ثقافت سے رنگا ہوا ہے جو سری نگر سے سونمرگ اور گلمرگ سے پہلگام تک اپنے سفر کے دوران لوگوں کو مسحور کرتا ہے اور زندگی کی نئی خوبصورتی سے آشناءکرتا ہے ۔ وادی کشمیر برف سے ڈھکے پہاڑیوں ، جھیلوں اور گلیشیر سے بھرا ایک خطہ ہے جہاں پر مختلف اقسام کے دریاءہیں جن میں مختلف رنگوں کا پانی ہے اور ان دریاﺅں میں نادر اقسام کی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور پائے جاتے ہیں جو اس جنت بے نذیر کی خوبصورتی کو مزید نکھاتے ہیں ۔ یہاں کے کھیت کھلیان ، سبزہ زار ، لاکھوں اقسام کے پھول اور خوشبودار جڑی بوٹیاں قدرت کے حسن سے نزدیک کرتے ہیں ۔اس سرزمین پر قدم رکھتے ہے امن ، خوبصورتی کا احساس ہوتا ہے ۔ جھیل ڈل میں تیرتی رہتی کشتیاں اور شکارے دلفریب مناظر پیش کرتی ہیں۔ یہاں کی وادیاںجتنی خوبصورت ہیں اس سے زیادہ یہاں کا کھانا لذیر ہے جو مہمانوں کے منہ سے داد دیئے بغیر نہیں ، اس کھانے میں دنیا بھرمیں مشہور وازان ہے جس میں دس سے زیادہ پکوان ہوتے ہیں اور دس کے دس پکوان گوشت سے بنے ہوتے ہیں ۔
کشمیر کا جغرافیائی وقوع سٹریٹجک حکومت اور فوج کےلئے کافی اہمیت کا حامل ہے ایک طرف چین کی سرحدیں اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ وادی کشمیر کا ایک خاصہ حصہ ملتا ہے دوسری طرف ہمالیائی وسیع سلسلہ بھارت کے ساتھ جوڑتا ہے ۔ کشمیر بھارت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے البتہ اس کاقدیم سلک روٹ چین ، بھارت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مشرقی وسطی کے ساتھ جوڑتا ہے جس کی وجہ سے یہاں پر بین الاقوامی تجارت پروان چڑھی تھی۔ تاہم کشمیر میں بیرون ممالک کی مداخلت اور وقت وقت حملوں کی وجہ سے اس خطے کی وہ بین الاقوامی تجارتی شہرت نہ رہی ۔تاہم مرکزی سرکار کی کاوشوں سے ایک بار پھر وادی کشمیر بین الاقوامی سطح پر تجارت کا مرکز بن رہا ہے خاص کر سیاحت کو فروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے وادی کشمیر میں تجارت بھی پھل پھول رہی ہے ۔
وادی کشمیر قدرتی وسائل سے مالال ہے جہاں قدرتی چشمے ، پانی کے ذخائر موجود ہیں وہی پر زرخیز زمین سے مختلف اقسام کے پھل پھول بھی پیدا ہوتے ہیں جو عالمی تجارت میں کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں خاص طور پر سیب، زعفران ،اخروٹ، بادام اور دیگر اشیاءہے ۔ یہاں پر پیدواری صلاحیت کافی ہے اورایگریکلچر میں کافی گنجائش ہے تاہم اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ دستکاری کے فنون سیریکلچر سبھی لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنیت کو ثابت کرتے ہیں۔ حکومت نے بااختیار بنانے اور کشمیر کی ثقافت کو سامنے لانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ جموں سے بارہمولہ تک ریل رابطہ لوگوں کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرے گا۔کشمیر ریل پروجیکٹ یقینی طور پر وادی کشمیر کی تجارت کےلئے ایک بہتر مدد گار ثابت ہوگا۔ اسی طرح یہاں پر کھیل کود کی سرگرمیوں کےلئے بھی وسیع گنجائش ہے جس کی طرف مرکزی سرکار توجہ دے رہی ہے ۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے دانش فاروق جیسے کھلاڑی کو قومی فٹ بال ٹیم میں منتخب کیا گیا ۔ اس سے کھیل کی سرگرمیوں کی طرف نوجوانوں کی توجہ زیادہ مبذول ہوگی اور وہ کھیل کود کی سرگرمیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کو بہتر تجارتی مرکز بنانے کےلئے سرکار کئی طرح کے اقدامات اُٹھارہی ہے ۔ معیشت کو فروغ دینے کےلئے حکومت نے کئی پالیساں سامنے لائی ہے ۔جس قدر یہاں پر امن و سکون رہے گا سیاحت کو فروغ ملے گا جس کی وجہ سے یہاں پر دستکاری ،ایگریکلچر اور صنعت کاری کو فروغ ملے گا جو کشمیر کےلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوگی اور اس جنت کشمیر کی اندرونی خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔
Revolutionizing Winter Vacations: Shaping Innovators and Leaders of Tomorrow
“The function of education is to teach one to think intensively and to think critically. Intelligence plus character – that...
Read more