وادی کشمیر میں چلہ کلاں موسم سرماءکا وسط مانا جاتا ہے ۔ چلہ کلاں میں عمومی طور پر شبانہ درجہ حرارت منفی صفر سے نیچے چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وادی کشمیر کے آبی ذخائر منجمد ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ جھیل ڈل میں پانی کی سطح اس قدر جم جاتی ہے کہ اس پر لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ ر ہر سال 21 دسمبر سے 29 جنوری تک 40 دن تک رہتا ہے۔چلہ کلاں کے ان چالیس دنوں میں جو برفباری ہوتی ہے وہ برف جم جاتی ہے اور کئی دنوں تک کبھی کبھی مہینے تک یہ سڑکوں ، باغوں اور کھیلے میدانوں پر دیکھی جاسکتی ہے جبکہ پہاڑی علاقوں میں خاص کر گلیشیر کے علاقوں میں یہ برف گلیشروں میں اضافہ کرتی ہے اور گرمیوں میں یہ پانی پگل کر دریاﺅں ،ندی نالوں اور چشموں کی شکل میں وادی کو سیراب کرتے ہیں ۔چلہ کلاں اصل میں فارسی لفظ ہے چلہ مطلب چالیس کلاں کے مطلب سخت سردی ، اسی لفظ سے چلہ کلاں بنا ہے جس کے مطلب چالیس روزہ سخت سردی کے ہوتے ہیں ۔اگر ہم بات کریں آج سے بیس تیس برس پہلی کی تو اُس وقت چلہ کلاں سخت ہوتا تھا اور شدید برفباری کے ساتھ ساتھ دن اور رات میں درجہ حرارت منفی 10ڈگری سے نیچے چلا جاتا تھا جس کے باعث مکانوں کی چھتوں سے برف پگلنے سے جو پانی کی بوندیں گرتی ہیں وہ آہستہ آہستہ جم جاتی تھی اور ہر گھر کے چھت سے نیچے گرنے والی یہ بوندیں شیشے کی تلواروں کی مانند دکھتی تھیں اور وادی میں یہ نظارہ قابل دید ہوا کرتا تھا لیکن اب اس شدت کے ساتھ چلہ کلاں کی سردی نہیں ہوتی اور ناہی اس قدر شدید برفباری ہوتی ہے ۔
چلہ کلاں کے ان چالیس روزہ ایام میں وادی کشمیر میں معمولات کی زندگی متاثر ہوتی ہے ۔ خاص طور پر ملبوسات اور کھانے پینے میں بھی تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے ۔چلہ کلاں کے ان دنوں میں لوگ اپنے آپ کو زیادہ گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کےلئے زیادہ گرم کپڑے پہننے کی ضرورت پڑتی ہے اور خاص طور پر سردیوں سے بچنے کےلئے ”فرن “ پہنا جاتا ہے ۔ اسی طرح کھانے پینے کی اشیاءمیں بھی زیادہ تر دالیں، گوشت، اور خشک سبزیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ زعفرانی قیوہ بھی بہت زیادہ استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں وادی کشمیر میں چلہ کلاں کے استقبال کے طور پر گھروں میں ”شاد بیگ“ بنایا جاتا تھا شاد بیگ ایک سالن ہے جو بطخ کا گوشت اور شلغم کا بنتا ہے اس میں بہت اقسام کے مسالحہ جات کا بھی استعمال کیا جاتا تھا اور کھانے میں یہ کافی لذیز ہوا کرتا تھا ۔ سردیوں میں یہ جسم میں حرارت پیدا کرتا تھا ۔ اسی طرح چلہ کلاں میں ایک ڈش زیادہ مشہور ہے جس جو آج بھی جاری ہے ۔ ”ہریسہ “ جس کو گوشت اور چالو کے مرقبہ سے تیار کیا جاتا ہے اس میں بھی کئی مسالحہ جات ملائے جاتے ہیں ۔ ”ہریسہ “ عام طور پر صبح ناشتے میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
درجہ حرارت منفی ہونے کے نتیجے میں جہاں آبی ذخائر جم جاتے ہیں وہیں پینے کے پانی کی پائپیں بھی جم جاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا بھی سامنا رہتا ہے ۔چلہ کلاں یا سردوں کے ان ایام سے نمٹنے کےلئے پہلے سے ہی تیاریاں کی جاتی ہیں۔ چلہ کلاں کی ان یخ بستہ ہواﺅں اور شدیدسردی سے بچنے کےلئے کشمیری لوگ ”کانگڑی“کا زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ گھروں کی تمام کھڑیوں پر موٹے موٹے پردے ، کنبل یا پالیتھیں لگاکر سردیوں سے بچنے کے حربے اپنائے جاتے ہیں ۔ چلہ کلاں میں شدید برف باری کے باعث بجلی کی عدم فراہمی سے سردی کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ چکلہ کلاں ایک طرف جہاں اہلیان وادی کےلئے مشکل ترین ایام ہوتے ہیں وہی اس میں سیاحت بھی خوب ہوتی ہے ۔ ملک اور غیر ملکی سیاح وادی کا دورہ کرتے ہوئے مختلف سیاحتی مقامات میں جاکر جمی ہوئی برف کا لطف اٹھاتے ہیں ۔ اب سرکار کی کوششوں سے وادی میں سردی کے کھیلوں کا بھی اہتمام کیاجاتا ہے۔ مختلف سیاحتی مقامات پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کرکے اسے ونٹر ٹورزم کو بڑھاوادیا جاتا ہے ۔ ونٹر ٹورازم میں منعقدہ تقریبات کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر مقامی دستکاری کی نمائش بھی کی جاتی ہے جبکہ موسیقی کے پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ چلہ کلاں کشمیری تہذیب اور تمدن کا ایک حصہ ہے اور ان چالیس دنوں میں یہاں کی ثقافت ، تہذیب اور روایات کو فروغ ملتا ہے۔ چلہ کلاں میں پہاڑی علاقوں میں جو برف جم جاتی ہے وہ پھر موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ آہستہ پگل کر نہروں ، دریاﺅں اور آبی ذخائر کو سیراب کرتی ہے اور یہاں کی سرزمین زرخیز بن جاتی ہے جس سے زراعت کے شعبہ میں بھی کافی بہتری آتی ہے ۔ مجموعی طور پر اگر بات کریں چلہ کلاں کی تو چلہ کلاں وادی کی خوبصورتی اور قدرتی وسائل میں اضافہ کےلئے ایک روح کے مانند ہے ۔