کسی بھی ریاست کی جدیدیت کے سفر میں ترقی کا اہم عنصر ہے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف جموں کشمیر کی بھی اپنی منفرد شناخت ہے خاص طور پر جغرافیائی لحاظ سے یہ خطہ ہم ہے کیوں کہ اس کی سرحدی ایک طرف چین اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں ۔ جموں کشمیر کی ایک الگ اور منفرد ثقافتی شناخت ہے جبکہ جموں کشمیر قدرتی خوبصورتی سے بھی مالا مال ہے جس کے تین اہم حصے جموں، کشمیر اور لداخ ہے ۔ جموں کشمیر میں متعدل آب و ہوا اور سرد موسم کی وجہ سے یہاں کی زمین بھی کافی زرخیز ہے جو یہاں پر زرعی سیکٹر کےلئے کافی سود مند ثابت ہورہا ہے جو جموں کشمیر کو نئی بلندیوں تک پہنچارہا ہے خاص کر شہر سرینگر جو جدیدت کی طرف اپنے سفر پر رواں دواں ہے ۔ یہاں کی ترقی کے سفر میں INOXتھیٹر اور شہر کے مختلف علاقوں میں بڑے بڑے شاپنگ مالز یہاں کی تیز تر ترقی کی داستان بیان کرتی ہے ۔ جہاں تک اقتصادیات کی بات ہے تو جبکہ سال 2015-16سے 2020-21تک جموں کشمیر کے این سی ڈی پی میں تقریباً8.16فیصدی کے سی اے جی آر تک اضافہ ہوا ہے ۔ اور تقریباً 1.49 ٹریلین روپے (20.49 بلین امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی۔اس ترقی کے سفر میں یہاں کے قدرتی وسائل کا اہم رول ہے جبکہ زرعی شعبہ جس میں باغبانی اور پھولبانی بھی شامل ہے میں گزشتہ کچھ برسوں سے نمایاں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق رواں برس صرف سیبوں کی فصل میں پچاس گنا اضافہ ہوا ہے ۔ جبکہ دیگر زرعی شعبوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس سے یہاں کے کاشتکار سیکٹر سے وابستہ افراد کی مالی حالت بہتر بن رہی ہے ۔ یوٹی دنیا کی مشہور اور روایتی دستکاری کی صنعت سے مالا مال ہے، جو گزشتہ چند سالوں میں ایک بڑی صنعت کے طور پر ابھری ہے۔ روزگار کے وسیع مواقع اور برآمدی امکانات کی وجہ سے صنعت کو حکومت کی ترجیحی توجہ مل رہی ہے۔ دنیا بھر میں جموں کشمیر اپنے مختلف ہنروں سے بھی مشہور ہے جن میں ریشم کی صنعت، شال بافی، قالین بافی ، مٹی کے برتن بنانے کی صنعت ، تابنے اور چاندی کے برتنوں پر نقش نگاری ، اخروٹ کی لڑی سے بنی مصنوعات کے علاوہ یہاں کی پیپر ماشی اور دیگر صنعتیں بھی مشہور و معروف ہے جو یہاں پر روزگار کے وسائل کے طور پر بھی کافی مدد دیتی ہے ۔ اسی طرح نایاب کاٹیج دستکاری کی صنعت مجموعی طور پر تقریباً 340,000 کاریگروں کو براہ راست اور فائدہ مند روزگار فراہم کرتی ہے۔ نئی صنعتی پالیسی سے یہاں کی صنعت کو عالمی سطح پر کافی بڑھاواملا ہے خاص کر سنگل ونڈو کلیرنس میکنزم سے دستکاروں اور تاجروں کو عالمی سطح پر اپنی مصنوعات فروخت کرنے اور اس کو نقل سے بچانے میں مدد ملی ہے ۔ مالی سال 2020-21میں جموں کشمیر کی برآمدات 159.64ملین امریکہ ڈالر تھیں جبکہ سال 2019-20میں جموں و کشمیر سے کل برآمدات 188.18 ملین امریکی ڈالر رہی۔ اس پالیسی میں صنعتی علاقوں میں رعایتی نرخوں پر زمین 90 سال کے لیے لیز پر دی جاتی ہے۔اس پالیسی سے غیر مقامی صنعت کاروں کو یہاں پر کام کرنے کا موقع ملا جس سے یہاں پر روزگار کے وسائل کے ساتھ ساتھ تجارت میں بھی کافی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ اسی طرح اگر ہم بات کریں بجلی کے شعبہ کی تو جموں کشمیر میں سب سے پیچیدہ معاملہ بجلی کی فراہمی کا رہا ہے تاہم گزشتہ چند برسوں میں اس میں کافی بہتری آئی ہے ۔ اپریل 2021 تک جموں و کشمیر میں 3482.11 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی مجموعی صلاحیت تھی، جس میں مرکزی یوٹیلیٹیز کے تحت 1866.08 میگاواٹ، 1535.98 میگاواٹ اور 80.05 میگاواٹ شامل ہیں۔رواں برس موسم سرماءمیں صارفین کو بہتر بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے سرکاری سطح پر اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ حال ہی میں چیف سیکریٹری اورڈویژنل کمشنر نے محکمہ بجلی کے افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ صارفین کو بلا خلل بجلی کی فراہمی کی یقینی بنانے کےلئے زمینی سطح پر اقدامات اُٹھائیں جن میں خاص طورپر بجلی کے ٹرانسفارمروں کی مرمت اور وقت پر ڈیلوری ، ترسیلی لائنوں کی تبدیلی شامل ہے ۔ جموں کشمیر میں ترقی کی راہیں کھل چکی ہے اور ڈپارٹمنٹ فار پروموشن آف انڈسٹری اینڈ انٹرنل ٹریڈ کے مطابق اکتوبر 2019 اور مارچ 2021 کے درمیان جموںکشمیر میں مجموعی ایف ڈی آئی کی آمد کی مالیت 0.21 ملین امریکی ڈالر تھی۔ نیشنل ہائی وے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن یوٹی میں 3.42 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے پانچ سرنگیں بنا رہا ہے۔ان سرنگوں سے جموں کشمیر میں اہم شاہراہوں پر ہر موسم میں ٹریفک کی آمدورفت ممکن ہوگی اور یہ سرنگیں 2024تک مکمل ہوجائیں گی۔ان سرنگوں سے جہاں ہر موسم میں ٹریفک کی نقل وحمل جاری رہے گی وہیں ان سرنگوں سے دشوار گزار پہاڑی اور بالائی علاقوں تک رسائی آسان ہوجائے گی ۔ 2020اکتوبر میں زوجیلا ٹنل پر تعمیراتی کام شروع کیاگیااس میں نیشنل ہائے وے پر زوجیلا پاس 14.15کلومیٹر لمبی سرنگ تمیر کی جارہی ہے جس کو زد موہر ٹنل کہا جاتاہے اس ٹنل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس سے سرینگر اور لہہ کے درمیان ہر موسم میں شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہے گی اور اس سے جموں کشمیر اور لداخ میں ہمہ جہت ترقی کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جارہا ہے ۔ یہ بات پہلے کی بتائی گئی کہ جموں کشمیر میں متعدل موسم کی وجہ سے یہاں کی سرزمین بہت حد تک زرخیز ہے جس کا فائدہ براہ راست زرعی شعبہ کو ملتا ہے ۔ سال 2019-20میں جموں کشمیر میں سبزیوں اور میوہ کی کل پیدوار کا تخمینہ باالترتیب 1337.12ہزار میٹرک ٹن اور 2541.16ہزار میٹرک ٹن لگایا تھا جبکہ گزشتہ برس کے بنسبت اس میں دوگنا اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکار کی طرف سے غیر مقامی سرمایہ کاروں کو یہاں پر سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہے اور اس کے تحت جموںکشمیر سرکار نے سرمایہ کاری کےلئے مختلف فرموں کے ساتھ 456مفاہمت ناموں پر دستخط کئے ہیں ۔اس طرح سے جموں کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری سے یہاںپر کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی بڑھاوا ملے گا جو یہاںپر نوجوانوں کےلئے روزگار کے مواقعے بھی فراہم کرے گا۔ اس طرح سے فروری 2021میں جموں کشمیر خاص کر سرینگر میں ملٹی ڈومین ڈیولپمنٹ کےلئے 23,152 کروڑ (US$ 3.17 بلین)روپے صرف کئے گئے ۔اس طرح سے غیر مقامی سرمایہ کاری کا باضابطہ آغاز ہوا ہے ۔ دیگر ترقیاتی شعبوں کے علاوہ مرکزی سرکار کی طرف سے جموں کشمیر میں کھیل کود کی سرگرمیوں کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے جسکے تحت وزیر اعظم نریندر مودی نے گلمرگ میں دوسرے کھیلو انڈیا سرمائی کھیلوں کا افتتاح کیا جس کا مقصد جموں و کشمیر کو سرمائی کھیلوں کا مرکز بنانا اور نوجوانوں کی مثبت سمت میں حوصلہ افزائی کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹورازم کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور جموں کشمیر انتظامیہ اور مرکزی سرکاری کی کاوشوںسے جموں کشمیر میںسیاحتی شعبہ میں خاصی ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے اعدادوشمار کے مطابق غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کی آمد بالترتیب 57,920 اور 16.16 ملین رہی جو کہ اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ دفعہ 370کے خاتمہ کے بعد جموں کشمیر میں حالات کافی بہتر ہوئے ہیں اور یہاں پر امن وسلامتی کے ساتھ ساتھ ترقی کا دور شروع ہوچکا ہے اور اب حکومت کو ریاست میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا کر محفوظ ماحول پیدا کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ بہتر مالیاتی انتظام کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی مالیات کو بھی مناسب توجہ دینی چاہیے تاکہ ملٹی اسپیکٹرل سیکٹرز میں موجود صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مضبوط پالیسی وضع کی جائے۔ باغبانی، ہینڈلوم اور دستکاری، بائیوٹیکنالوجی، سیاحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے ممکنہ شعبوں کی ترقی کا ان شعبوں کے توازن کے ساتھ مضبوط تعلق ہوگا جو ریاست جموں و کشمیر کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔تاکہ جموں کشمیر کے عوام کو زمینی سطح پر تبدیلی دکھے اور یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے ملے تاکہ وہ کسی بھی بہکاﺅے میں نہ آئے اور راستے سے بھٹک نہ جائے ۔ جموں کشمیر میں ترقی کے منظر نامے کی طرف اگرچہ سرکار خاصی توجہ دے رہی ہے تاہم اس میں مزید سرعت لانے کی ضرورت ہے ۔
From Learning Tools to Distractions: The Rise of Mobile Phones in Children’s Lives
In the post-pandemic world, mobile phones have become an integral part of everyday life, not only for adults but also...
Read more