جموں و کشمیر ایک ایسی یونین ٹریٹری ہے جس کا کلچر اور رہن سہن ملک کی باقی ریاستوں سے مختلف ہے اور اس یونین ٹریٹری کا بین الاقوامی سرحد پاکستان اور چین سے ملتا ہے۔
جموں وکشمیر بیس اضلاع پر مشتمل یونین ٹریٹری ہے اور برف پوش پہاڑ، سر سبز و شاداب جنگل، صاف و شفاف پانی سے بھرے جھیل جھرنے اور دریا اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں۔
یوں تو جموں وکشمیر کا ہر ضلع اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے لیکن وادی کشمیر کی خوبصورتی بے مثال ہے اور وادی کشمیر کے نوجوان بھی سپورٹس سے لے کر سیول سروسز تک ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے اور ملک کے دوسرے نوجوانوں کے لئے مشعل راہ بن رہے ہیں۔
کشمیر کا جب زمینی سطح پر جا کر جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک الگ ہی صورتحال سامنے آتی ہے یہاں آبادی کی 26 فیصد لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں اور لگ بھگ ہر کشمیری ایک ایسے مکان میں رہائش پذیر ہے جیسے مکانوں میں ملک کی باقی ریاستوں کے اپر مڈل کلاس کنبے رہتے ہیں۔
وادی کشمیر اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے نہ اہلیان وادی غریب ہیں بلکہ یہاں جو بیادی مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کئی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی دستیابی کا فقدان ہے جس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جموں وکشمیر میں تعمیر و ترقی کی رفتار سست ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے گذشتہ تین دہائی کے دوران سایہ فگن رہنے والا ملی ٹنسی کا ماحول ایک اہم وجہ ہے۔
وادی کشمیر میں زرعی شعبے اور دیگر متعلقہ شعبوں میں پیدوار میں کمی واقع ہونے سے لوگوں کا روز گار از حد متاثر ہوا ہے اور آمدنی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اس کے علاوہ نا کافی انفراسٹریچکر اور سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہونے سے شعبہ صنعت پروان نہیں چڑھ رہا ہے۔
بعض سیکٹروں میں ایک مربوط پالیسی کا فقدان ہے جو اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن رہا ہے اور گوڈ گورننس اور اقتصادی حکمت عملی کا فقدان بھی جموں وکشمیر میں سست اقتصادی ترقی کی ذمہ دار ہیں۔
جموں وکشمیر کی معیشت میں شعبہ زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اور 80 فیصد آبادی کی روزی روٹی اسی شعبے پر منحصر ہے۔ کشمیر کی بنیادی فصل دھان ہے جبکہ گندم اور مکی بھی یہاں اگائی جاتی ہے صوبہ جموں میں مکی اور گندم کی فصل اگائی جاتی ہے۔
جموں وکشمیر کے لوگ غذا کے لئے خاص طور تین اجناس چاول، مکی اور گندم کا استعمال کرتے ہیں اور قریب 84 فیصد اراضی پر یہی اجناس اگائے جاتے ہیں باقی 16 فیصد اراضی پر دالیں وغیرہ اگائی جاتی ہیں اور ملک کی 75 فیصد سیب کی پیدا وار جموں وکشمیر میں ہی تیار ہوتے ہیں۔
شعبہ ذراعت میں ترقی کی شرح کو سالانہ تین سے چار فیصد بڑھانے کے لئے حکومت چاہئے کہ وہ اس کے لئے ایک ٹھوس پالیسی تیار کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس شعبے کی پالیسی کو ’فود سیکورٹی موڈ‘ سے ’ویلیو ایڈیشنل موڈ‘ میں تبدیل کرکے پھل اور سبزیاں اگانے پر زور دے جن کی بازار میں مانگ اور بھاؤ اچھا ہو کشمیر میں زعفران، سیاہ زیرا اگانے کے لئے ساز گار ماحول ہے اور کسانوں کے لئے کھاد، بیج، ادویات اور دیگر سہولیات کی بر وقت دستیابی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اور کشمیر میں پنجاب جیسا بڑے پیمانے کا زرعی پلان عمل میں لایا جانا چاہئے۔
جموں وکشمیر کی ایک بڑی آبادی کا سری کلچر بھی ایک روایتی پیشہ ہے کشمیر ڈیولپمنٹ کی سال1999 -2000 کی رپورٹ کے مطابق 25.28 فیصد کنبے ریشم فائیبر نکلانے کے کام سے وابستہ تھے۔
یہ بات انتہائی حوصلہ شکن ہے کہ ریشم صنعت جس کاایک شاندار ماضی ہے، آج تنزل پذیر ہے ریشمی کیڑے کی ایک خصوصی قسم جو بیماری لگ جانے سے محفوظ ہوتی ہے، کو تیار کیا جانا چاہئے جس سے ریشم کی پیداوار میں اضافہ درج ہوسکے۔ اور اس کے لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ نجی سرمایہ کاروں کو بنیادی ڈھانچہ فراہم کرے، کسانوں کو اپنی کھیت کھلیانوں اور میوہ باغوں کے کناروں پر ملبری درخت لگانے کی تحریک دی جانی چاہئے باغبانی اور زمینداری کے ساتھ ساتھ ملبری کی پیدوارا تیار کرنے سے کسانوں کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوگا اور اس سے مزدور طبقے کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ موقعے مل جائیں گے۔
جموں و کشمیر صنعتی لحاظ سے ایک پسماندہ خطہ ہے تاہم چھوٹی سطح کی انڈسٹریز اور کاروباری یونٹس یہاں قائم کئے جا رہے ہی۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان چھوٹے کاروباری یونٹوں کو دوام بخشنے کے لئے یونٹ ہولڈروں کو بینک قرضے اور دوسرے مراعات فراہم کرے۔
جموں وکشمیر میں سڑکیں ہی آمد و رفت اور ٹرانسپورٹیشن کا اہم ذریعہ ہیں کیونکہ یہاں ریلوے کا جال ابھی اچھی طرح سے نہیں بچھ گیا ہے لہذا اس لحاظ سے یہ ملک کی باقی ریاستوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔ اور وادی کشمیر کا نازک ماحولیات بھی معدنیات پر استوار کارخانوں کے قیام میں حائل ہے۔
ماہی گیری کا شعبہ بھی جہاں روز گار کا ایک اچھا وسیلہ ہے وہیں سیاحوں کی دلچسپی کا بھی باعث ہے اس سے زرعی معیشت کو دوام مل سکتا ہے اور روز گار کے موقعوں کو بھی وسعت مل سکتی ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مچھلیوں کا بازار میں پہنچانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو مستحکم کیا جائے اور ہمسایہ ریاستوں جیسے پنجاب میں مچھلیاں پہنچانے کے لئے راہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے پرائیویٹ سیکٹر کو بینادی ڈھانچہ جیسے گاڑیاں وغیرہ بہم پہنچانے کی ضرورت ہے
اور فش فسٹیول منعقد کرنے سے اس فیلڈ کی طرف ملک و بیرون ملک کے متعلقین مائل کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں ماحول، خام مواد کی دستیابی، افرادی قوت کی دستیابی وغیرہ کو ملحوظ نظر رکھ کر صنعتی شعبے کے فروغ کے لئے مخصوص پالیسی مرتب کی جانی چاہئے اور حکومت یہاں سرمایہ کاری کے لئے نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کلیدی رول ادا کر سکتی ہے۔ اور انڈسٹریل اسٹیٹس میں قائم ہونے والے کاروباری یونٹوں کو تمام تر بنیادی سہولیات بہم پہنچانے کی ضرورت ہے ان یونٹوں کی بلا خلل بجی کی فراہمی اور بہتر کنکٹوٹی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اگر ترقی کے ان نقوش کو عملی جامہ پہنایا جائے گا تو ایک پر امن کشمیر کا خواب شرمندہ تعبیرہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی اور ایک ایسا کشمیر تعمیر ہوسکتا ہے جس کا ہر فرد اس ملک کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کرے گا۔ یہ تبدیلی اس وقت سے شرع ہوگی جب ہم کشمیریوں کو یہ محسوس کرانے میں کامیاب ہوں گے کہ وہ پہلی ہندوستانی ہیں بعد میں کشمیری ہیں۔ جموں وکشمیر کو چونکہ ایک اہم اور مختلف اسٹریٹیجیکل جغرافیائی حیثیت حاصل ہے لہذا اس کی ہمہ گیر ترقی کے لئے فوری اور موثر اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے تمام شعبوں کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت ہےاور ترجیحی بنیادوں پر کشمیر میں امن و قانون کی صورتحال کو بہتر بنا کر ایک محفوظ ماحول تیار کیا جانا چاہئے اور ٹھوس پالیسی اور گوڈ گورننس سے ہی جموں وکشمیر تعمیر وترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکتی ہے۔