بہر صورت مجھے پہچانتے ہیں محمد سلیم سالک جب ریڈیو کشمیر پر یہ اعلان ہو اکہ پروفیسر حامدی کاشمیری کو پدم شری اعزاز کے لئے نامزد کیا گیا ہے تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی ۔جس کی دوہری وجہ ہے اول حامدی صاحب اردو کے جید اور نامور نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں دوئم اس لئے کہ ان کا تعلق سرزمین ِ کاشمیر سے ہے ۔عصری تنقیدی دبستان میں جن سرکردہ نقادوں نے اپنا لوہا منوایا ،ان میں شمس الرحمان فارقی ، گوپی چند نارنگ ،وزیر آغا،وارث علوی،فضیل جعفری ،شمیم حنفی،وہاب اشرفی،مغنی تبسم اور حامدی کاشمیر ی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔حامدی صاحب کی پچاس سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں قریباًتیس تنقیدی کتابیں ،دس شعری مجموعے ،چارافسانوی مجموعے ،پانچ ناول اور ایک سفر نامہ بھی شامل ہے۔ذمہ دار عہدوں پر فائز رہتے ہوئے ایس پی کالچ کے لیکچرارسے کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تک کا سفر کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔حامدی صاحب کی کثیرالجہت شخصیت کا اعتراف بہت دیر بعد ہوا ،میرے خیال سے پدم شری کا اعزاز انہیں بہت پہلے ملنا چاہئے تھا ۔بقول کسے دیر آید درست آید ۔
جو تھوڑی سی بھی اردو جانتے ہیں بہر صورت مجھے پہچانتے ہیں ذاتی طور پر حامدی صاحب کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا ۔میری دیرینہ خواہش دوران ایم اے پوری ہوئی جب ایک مرتبہ ڈاکٹر ارتضی کریم اورپروفیسر قدوس جاوید کے ساتھ حامدی صاحب کے دولت کدے پر جانے کا اتفاق ہوا۔ جوں ہی ہماری گاڑی ڈل جھیل کی پُرفضا ہواﺅں کو چیرتی ہوئی شالیمارباغ کے عقب میں واقع کوہ سبز کی اونچائی پر پہنچی ،تو حامدی صاحب کا نشیمن دیکھ کر بے ساختہ علامہ اقبال کے یہ اشعار زبان پر آگئے ۔ شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری دامن میں کوہ کے اک چھونپڑا ہو حامدی صاحب بڑے تپاک سے ملے ۔
مصرہ مریم صاحبہ نے بڑی خاطر تواضع کی اور چائے کا دور دورہ چلا ۔حامدی صاحب ہر مرتبہ اپنے تنقیدی نظریے ”اکتشافی تنقید “ کو زیر بحث لاتے ۔اور اس کوشش میں لگے رہتے کہ ہم ان کے مطمح نظر کو سمجھیں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کا ردعمل بھی کریں ۔قدوس صاحب نے کئی سوالات اکتشاقی تنقید کے حوالے سے کئے ۔جن کے جوابات حامدی صاحب نے بڑی خندہ پیشانی دیئے ۔یہاں تک کہ ایک بار اپنا ایک شعر موضوع سخن بناتے وقت جذباتی ہوگئے ۔ عجیب دُھوپ تھی سب کو برہنہ کرتی تھی سیہ حروف کو ملبوس کر گیا کوئی گھر کے باہر دھوپ تھی ،عجیب دھوپ ،ایسی کہ سب کو برہنہ کرتی تھی ۔اس میں اس قدر حدت تھی کہ لوگ خود ہی بے لباس ہوجاتے تھے یا اس قدر شعلہ بار تھی کہ سب کے ملبوس جل جاتے تھے اور وہ برہنہ ہوجاتے تھے ۔شعر کا راوی یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔اس بھیڑ میں کوئی ایک اپنا بچاٶ چاہتا تھا،وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے ۔ وہ اس دھوپ سے بچنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے بدن کو سیاہ حروف سے ڈھانپ لیتا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی عام آدمی نہیں کرسکتا ۔کوئی فن کار کرسکتا ہے ۔اس ساری صورت حال کو imagineکرو۔اب دیکھنا یہ ہے تن ڈھانپنا ،یعنی پناہ لینا ،ظاہر ہے حروف (شاعری) تیز دھوپ کا سدباب نہیں کرسکتے لیکن یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ شاعری تحفظ کا سامان کرسکتی ہے ۔یہ مقدس حروف یا دعائیہ حروف بھی ہوسکتے ہیں ۔وہ آگ برساتی دھوپ سے پناہ دے سکتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سیاہ حروف جو بھی ہیں اس دھوپ کی تباہی سے بچا سکتے ہیں ۔یہ شعر چند الفاظ یعنی دھوپ ،سیہ حروف اور ملبوس سے علامتی فضا کو خلق کرتا ہے اور ایک سے زائدمعانی کا احاطہ کرتا ہے ۔حامدی صاحب کی زبانی شعر کی تفہیم سے معنی ایک ایک کرکے میرے ذہن میں اترتے جاتے تھے اور میں گویا کسی دوسری دنیا میں پہنچ گیا ۔ساتھ ہی انہوں نے متن کی اکتشافی قرا ت پر زور دیتے ہوئے سات نکات کی نشاندہی کی ۔ ۱۔ مصنف کا متن سے اخراج ۲۔متن میں موضوعیت کے بجائے تجربے کی دریافت ۳۔قاری کی متن سے رشتگی ۴۔تجربے کی نمو پذیری ۵۔تجربے کی کثیر الجہتی ۶۔قاری کے جمالیاتی اور فکری مقتضیات ۷۔متن کی قدر سنجی ڈاکٹر ارتضی کریم نے حامدی صاحب کو یہ کہہ کرٹوکا کہ جناب اب ہمیں بھی کچھ نام کمانے کا موقعہ دیجئے اس پر سب ہنسے لگے ۔میں نے موقعہ کی نزاکت سمجھتے ہوئے حامدی صاحب کی توجہ اردو افسانہ کی طرف مبذول کی ۔حامدی صاحب نے چند لمحے توقف کرتے ہوئے کہا کہ ا فسانے کے بارے میں جو تنقیدیں ملتی ہیں وہ اپنی محدودیت کا احساس دلاتی ہے یہ افسانے کے تئیں نقادوں کی سردمہری اور بے اعتنائی کی غماز ہے۔نقادوں کے اس رویے کی ایک وجہ ان کی سہل انگاری بھی ہوسکتی ہے وہ شاید کسی افسانہ نگارکی قدر سنجی کے لئے اس کی جملہ تصانیف کے علاوہ پورے افسانوی ادب کا مطالعہ خاصا دقت طلب اورtime consuming تصور کرتے ہیں ۔حامدی صاحب کی باتوں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ حامدی صاحب افسانہ کا تجزیہ کرتے وقت افسانہ کی تشریح و تعبیر کونثری روپ دینے کو تنقیدی عمل نہیں مانتے بلکہ وہ افسانے کی ساخت ،واقعات ،کردار اور ماحول کی اکتشافی صورتحال کا تجزیہ کرکے قاری کو تخیلی دنیا سے گزار کر افسانہ کے اسرارو رموز سے آگاہی دیتے ہیں ۔ اس لئے وہ افسانہ کے متن کا مطالعہ کرتے وقت افسانے کے پہلے جملے سے ہی اکتشافی عمل شروع کر کے کہانی کی گرہیں کھول دیتے ہیں ۔پریم چند کے شاہکار افسانہ ”کفن “ کے پہلے اقتباس کو لے لیجئے ۔ ” جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں بجھے ہو ئے الاﺅ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندربیٹے کی جوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھارہی تھی “۔ بس پھر کیا تھا کہ حامدی صا حب نے افسانے کے پہلے ہی جملے سے اکتشافی تھیوری کا استعمال کرکے اپنا استدلال یوں پیش کیا ۔ ” یہ جملہ ایک تجسس خیز اور بصری ڈرامائی صورتحال جو کردار ،ہیئت ،فضا اور تحرک سے عبارت ہے کی نمود کو ممکن بناتا ہے۔ افسانے کا یہ اولین جملہ خارجی سطح پر ہی فضا آفرینی نہیں کرتا بلکہ داخلی سطح پر بھی کرداروں یعنی باپ اور بیٹے کی ذہنی کیفیت کو منکشف کرتا ہے “ دونوں ایک بجھے ہوئے الاٶکے سامنے خاموش بیٹھے تھے “ میں ” بجھے ہوئے الاٶ“ اور ” خاموش “ ان کے داخلی وجود کی بے حسی ،تاریکی ،خستگی اور لاتعلق کا رمز بن جاتی ہے اور پھر اس جملے کے بقیہ حصہ یعنی ” اندربیٹے کی جوان بیوی بدھیا دردزہ سے پچھاڑیں کھارہی تھی “ میں ” جوان بیوی “ اور اس کا ”دردزہ “ میں مبتلا ہونا زندگی کے اثباتی اور امکانی پہلو کو نمایا ںکرتا ہے اس طرح افسانے کا پہلا جملہ ایک متناقض(paradoxical) صورتحال پیدا کرتا ہے ۔ حامدی صاحب کی معلومات سے بھری باتیں سن کر مجھے احساس ہوا کہ ان کو درسی تنقید کے موئدین سے گلہ ہے کہ جنہوں نے اکتشافی تنقید کو سمجھنے کی بجائے سنی سنائی باتوں پر اپنی رائے دیناشروع کردی ہے ۔میں نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ آپ نے ریاستی ادیبوں پر بہت کم لکھا ہے۔ میری بات سنتے ہی مسکرانے لگے کہ ہر ایک ادیب چاہتا ہے کہ میں اس کی کتاب پر مضمون لکھوں ،لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ جب تک کوئی تخلیق نقاد کوAppeal نہ کریں وہ اس پر خامہ فرسائی کیسا کرسکتا ہے۔آج کا قلم کار پڑھے لکھے بغیر ادبی نروان چاہتا ہے جو کبھی ممکن نہیں ہے ۔میں نے تو پوری زندگی میر،غالب اور اقبال کو پڑھنے میں صرف کردی،تب کہیں مجھے پر شعر کے اکتشافی اسرار آشکار ہوئے ۔