محمد سلیم سالک
2006ءکی با ت ہے کہ ہمارے شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ارتضیٰ کریم ایک توسیعی لیکچر دینے کے لئے تشریف لائے تھے ،تو انہوں نے اردو افسانے کے حوالے سے کچھ بنیادی باتوں کاخلاصہ پیش کیا ،اور آخر پر سوال وجواب کا سلسلہ بھی چلا ۔تو میں نے موضوع کی مناسبت سے پروفیسر موصوف سے یہ سوال کیا کہ جب بھی افسانوں کے حوالے سے تنقیدی مضامین لکھے جاتے ہیں ان میں کہیں بھی کشمیر کے افسانہ نگاوروں کا ذکر نہیں ملتا ،اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ میرے سوال پر کچھ دیر توقف کرکے انہوں نے یوں وضاحت کی،کہ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اول یا تو کشمیر کے افسانہ نگاروں کے باہر کے رسالوں سے رابطے نہیں ،دوئم یا تو ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،سوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اردو میں معیار ی افسانے لکھنے سے قاصر ہوں ۔ حقائق کی نشاندہی ہونے کے بعد میرے دل میں یہ امنگ جاگی ،کیوں نہ ریاست جموں و کشمیر کے افسانہ نگاروں کا ایک جامع انتخاب ترتیب دیا جائے ،جس سے اس بات کا ازالہ ہوجائے کہ کشمیر کے افسانہ نگاروں کو افسانے لکھنے ہی نہیں آتے ہے۔
اس سلسلے میں ، میں نے ایک خاکہ تیار کیا ۔تو قریباً اسی(۸۰) افسانہ نگاورں کی ایک طویل فہرست تیار ہوگئی ،جو کہ میرے لئے حیرت افزا بات تھی ،لیکن ہر افسانہ نگار کو شامل انتخاب کرنا ممکن نہیں تھا ،تو کئی دنوں کی محنت شاقہ کے بعد کل پچیس افسانہ نگاروں کی ایک حتمی فہرست بنانے میں کامیاب ہوا ۔جب میں نے اس کام کو عملی جامہ پہنانے کےلئے ڈھول ڈالا ،تو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔کچھ افسانہ نگار وں نے ”مجذوب کی بڑ“ سمجھ کر نظر انداز کردیا ،تو کسی نے در خور اعتناءبھی نہیں سمجھا ۔کچھ افسانہ نگاروں کی تخلیقات پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ان کو افسانہ نگار کس لحاظ سے کہا جاتا ہے ،تو پروفیسر موصوف کی بات یاد آگئی کہ یہاں میعاری افسانہ لکھے ہی نہیں گئے ہیں ۔اپنی خفت مٹانے کے لئے میں نے پھر اس معاملہ پرسنجیدگی سے غور کیا ۔ تو کچھ مثبت نتائج ملے ۔
اس سلسلے میں جب میں پہلی بار عمر مجید کا ایڈریس معلوم کرکے ان کے گھر واقع سونہ وار پہنچا،تو دل میں یہ وسوسہ ضرور تھا کہ کہیں عمر مجید نوآموز سمجھ کر دروازے سے ہی نہ لوٹا دے ،لیکن اس کے برعکس عمر مجید نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ خاطر تواضع کی اور اگلی ملاقات میں اپنے کچھ افسانے ،سوانحی خاکہ اور ایک عدد فوٹو گراف دینے کا وعدہ کیا ۔یہ ملاقات میرے لئے حد سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی ۔میں اپنے کام کو حتمی شکل دینے کےلئے پھردیگر افسانہ نگاروں کی تلاش میں سرگرداں رہا ۔ جب میں نے کئی دنوں تک عمر مجید سے رابطہ نہیں کیا تو وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہفتہ روزہ ”کشمیر عظمیٰ “کے آفس تک پہنچ گئے ۔تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہی گلے لگایا اور ساتھ میں ایک لفافہ بھی تھمادیا ۔جس میں کچھ افسانوں کے علاوہ مختصر سوانحی خاکہ اور ایک پرانی تصویر بھی تھی،جسکو دیکھ کر اخبار کے ایڈیٹر جاوید آذر نے عمر مجید پرفقرہ کستے ہوئے کہا کہ عمر صاحب کیا آپ بھی دوسرے ادیبوں کی طرح بڑھاپے میں جوانی کی فوٹو ساتھ رکھتے ہیں ،یہ سنتے ہی عمر مجید ہنسنے لگے اور برجستہ جواب دیا کہ چور چوری سے جائے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں۔
کچھ عرصہ گذرنے کے بعد پتہ چلا کہ انہوں نے روز نامہ ” آفتاب “ کو خیر آباد کہہ کرہفتہ روزہ ” رہبر “ کی ادارت سنبھالی ہے ۔نورشاہ صاحب کے توسط سے مجھے ملنے کےلئے کہا تو ایک دن میں آفس میں ملنے چلا گیا۔عمر صاحب کمرے کے کونے میں پروفیسر بدخشی صاحب کے ساتھ کسی معاملہ پر بحث کررہے تھے تو مجھے دیکھ کر کرسی سے کھڑے ہوگئے اور بغلگیر ہوکر گویا ہوئے کہ آو برخوردار میں تمہارا ہی انتظار کررہا تھا۔ تم میرے لئے ایک مضمون ”۲۰۰۶ میں ریاست جموں و کشمیر کے ادیبوں کی کاوشیں کتابوں کے حوالے سے“ تحریر کرو۔میں نے مضمون لکھنے کی حامی بھرلی ، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اگر غیر دانستہ طور ہی سہی کسی کا نام چھوٹ جائے تو وہ غلطی قابل معافی نہیں بلکہ قابل گردن زدنی ہے ۔یہ مضمون میں نے چار قسطوں میں لکھا ،تو بہت خوش ہوئے ۔ اگرچہ ان کے ایک عزیز دوست نے مجھے ہدف تنقیص بناتے ہوئے ”ادبی ڈنڈھورچی “ کے خطاب سے بھی نوازا تھا ۔عمر مجید نے وہ مراسلہ مجھے تحفةً عنایت کرکے فرمایا، برخوردار سنبھل کر لکھو کیونکہ تمہاری تحریر کسی بھی ادیب کی دل آزاری کا سبب بن سکتی ہے ۔کچھ عرصہ کے بعد ہی عمر مجید کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اگرچہ بعد میں ان اصحاب سے میرے اچھے تعلقات استوار ہوگئے۔
عمر مجید سے جب بھی ملاقات ہوتی تو افسانوں کے حوالے سے ہی بات ہوتی۔وہ اس بات سے نالاں تھے کہ لوگ اب مطالعہ ومشاہدہ کے بغیر افسانے لکھتے ہیں ۔ان کا یہ جملہ قابل ِتوجہ ہوتا کہ برخوردار میں نے زندگی میں کل چالیس افسانے لکھے ہیں اور قہقہہ مار کر مزید کہتے کہ اس حساب سے میں نے سال میں ایک ہی افسانہ لکھا ہے جبکہ لوگ سال میں ایک کتاب لکھ دیتے ہیں ۔ تو مجھے منٹو کا وہ جملہ یاد پڑتا جس میں وہ بیدی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ” بیدی ،تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو،معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو ،لکھتے ہوئے سوچتے ہواور لکھنے کے بعد بھی سوچتے ہو ۔“ ایک دفعہ عمر مجید لال چوک میں اضطراری عالم میں ملے ۔تومیں نے خیرو عافیت پوچھنے کے بعد پریشانی کا سبب پوچھا ۔تو انہوں نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ برخوردار تم نے دنیامیں مجھ سے زیادہ کم فہم آدمی دیکھا ہے ؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تووضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں کل دو ناول لکھے ہیں جو بدقسمتی سے دونوں میرے پاس نہیں ہیں،میری خواہش تھی کہ ”دردکا دریا “ پھر سے شائع کروں ،لیکن میرے پاس کوئی نسخہ موجود نہیں۔میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جناب آپ بے فکر رہیں کل تک آپ کوناول مل جائے گا ۔میں گھر گیا اور ذاتی کتب خانے سے مذکورہ ناول ڈھونڈ کر عمر مجید کے دفتر ” آفتاب ‘ ‘پہنچ گیا ۔تو ناول کا نسخہ دیکھ کر ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی کہ جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز اچانک مل جائے ۔لیکن المیہ کی بات ہے کہ جب عمر مجید انتقال کرگئے ،تو کوئی صاحب اسی ناول کے نسخے کو لے اُڑا۔بعد میں عمر مجید کے فرزند سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس ناول کو چھاپنے کے لئے کسی کو دس ہزار کی رقم پیشگی بھی دی تھی۔لیکن اس پبلشر کا پتہ ہنوزنہیں چلا۔ جب انسان کا رخت سفر باندھنے کا وقت قریب آتا ہے تواس کو محسوس ہوجاتا ہے ۔ شاید اسی لئے عمر مجید نے محسوس کیا کہ اب اپنے افسانوں کو جمع کرنا چاہئے ،تو انہوں نے مجھے گھر بلایا ۔حسب سابق خاطر تواضع کرتے ہوئے کہا کہ برخوردار اب شاید زندگی وفا نہ کرے ،تم یہ سارا مواد لیکر اس میں قابل اشاعت افسانے ترتیب دے کر ان کو ایک کتابی شکل دو۔میں نے افسانوں کا یہ پلندہ بیگ میں رکھ کر کہا ،جناب انتخاب میں اپنی مرضی سے کروں گا ۔تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اسی لئے تمہارا انتخاب کیا ہے ۔
وقت گزرتا گیا اور میں گھریلوپریشانیوں میں اتناالجھ گیا کہ عمر مجید کے افسانے سرسری مطالعہ کے بعد کتابوں کے ڈھیر کے نیچ دب گئے ۔تو کئی مہینوں کے بعد ایک دن عمر مجید نے فون کرکے مجھے گھر کا ایڈریس مانگا،میں ہکا بکا رہ گیا ۔میں نے لاکھ جتن کئے کہ میں خود حاضر ہوجاو ں گا ،لیکن انہوں نے ایک نہیں مانی ۔مجھے مجبوراً ایڈریس دینا پڑا ۔ میں قمرواری چوک میں ان کا انتظار کرنے لگا،تو میں نے عمر مجید کو ایک گاڑی سے اترتے ہوئے دیکھا۔ہاتھو ں میں ایک بڑا سا لفافہ اُٹھایا ہوا ہے۔میں نے منت سماجت کی ایک کلو میٹر کا سفر آٹو میں کرتے ہیں ،تو درجواب ہنستے ہوئے کہا کہ برخوردارمیں نے پوری زندگی پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے گزاری ہے اور تم مجھے بوڑھا سمجھ کر آٹو میں سفر کرنے کو کہتے ہو۔جوں ہی میں نے گھر پہنچ کر ان کو افسانوں کا پلندہ یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ اس میں کل گیارہ افسانے قابل اشاعت ہیں ۔تو انہوں نے جلدی میں افسانوں کا پلندہ بغل میں دبائے گھر کی راہ لی ۔ اگلے روزمیں کشمیر عظمیٰ میں یہ اشتہار پڑھتا ہوں کہ عمر مجید کا افسانوی مجموعہ عنقریب شائع ہورہا ہے ،یہ عبارت پڑھ کر مجھے عجیب لگا کہ عمر مجید کو اتنی کیا جلدی پڑی ہے لیکن اس بات کا خلاصہ ایک مہینے میں ہی ہوا جب عمر مجید صاحب کا انتقال ہوگیا ۔تو مجھے اپنی غیر سنجیدگی کا احساس ہوا ۔
پس نوشت ; عمر مجید کی وفات کے بعد خاکسار نے “عمر مجید کے بہترین افسانے ” مرتب کی ۔جس میں تیس صفحات کا مقدمہ بھی شامل ہے ۔