تواریخ کے آئینے میں سکھ مذہب کا وادی میں قیام
وادی کشمیر میں سکھوں کی تاریخ صدیوںپُرانی ہے جب ہندوستان کے شمالی حصے میں 1500عیسوی میں سکھ مذہب کا وجود عمل میں آیا اُسی دور میں وادی کشمیر بھی سکھ مذہب کی شروعات ہوئی ہے ۔ کشمیر میں سکھوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گرونانک صاحب اپنے روحانیت اور امن بھائی چارے کا درس دور دراز علاقوں تک پہنچانے کے سفر میں نکلے تو انہوںنے لداخ جانے کےلئے کشمیر کا راستہ اپنایا اور اُسی دور میں گرونانک صاحب کشمیر میں رہے اور مقامی سنتوںاور مذہبی رہنماﺅں کے ساتھ بات چیت کی ۔ اور یہاں پر اپنے تعلیم کو عام کرتے گئے اسی دوران یہاں پر انہوں نے کئی افراد کو متاثر کیا جنہوںنے ان کی پیروی کی ۔ سکھ تاریخ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ گرو نانک دیو نے کشمیر کے علاقے مٹن سے تعلق رکھنے والے پنڈت برہم داس کو اپنا پہلا سکھ بنایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پنڈت برہم داس نے گرو نانک دیو سے درس لیتے تھے اور اسی لیے وہ اندرونی سکون اور روحانیت کی تلاش میں ان کے شاگرد بن گئے تھے۔گرونانک صاحب نے وادی کشمیر کے کئی علاقوں کابھی سفر کیا ہے جن میں مٹن، اونتی پورہ،بانڈی پورہ پتوشاہی بارہمولہ جہاںپر ان کی ان جگہوں پر سفر کے شواہد آج بھی مل رہے ہیں۔ کشمیری عوام چونکہ ہمیشہ سے ہی مذہبی طور پر عقدیت پسندرہے ہیں نے گرونانک جی کے عقیدے سے اپناعقیدہ جوڑا اور ان کی پروی کرکے ذہنی اور قلبی سکون حاصل کیا۔
سکھ مذہب کی تعلیم گرونانک جی کے سفر کشمیر کے بعد بھی جاری رہی ، چھٹے گرو، گرو ہرگوبند سنگھ نے بھی کشمیر کا سفر کیا جہاں انہوںنے سکھ مذہب کی تعلیم کو عام کرنے میں اپنی خدمات انجام دی ۔ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے ساتھ اختلافات کے حل کے بعد گرو ہرگوبند سنگھ ان کے ساتھ کشمیر گئے اور سکھ مذہب کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے مختلف مقامات پر قیام کیا۔اپنے سفر میں گرو ہرگوبند سنگھ نے میرپور کین، سامانی اور سری نگر جیسے مقامات پر قیام کیاجہاں انہوں نے سکھ مذہب کا پرچار کرکے گرونانک صاحب جی کی تعلیم کو عام کیا۔ بیرو دت، مولا اور بھائی جھنڈا سکھ تاریخ کی چند معروف شخصیات ہیں جو ان کے شاگرد بنے اور اس خطے سے سکھ مذہب میں شامل ہوئے ۔اسی طرح گرو ہر رائے اور گرو گوبند سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کشمیر کا دورہ کیا تھا۔ان کے علاوہ بھائی پھیرو، بھائی مادھو سوڈھی، بھائی گڑھیا اور بھائی مکھن شاہ لبانہ کچھ ایسے اہم مبلغین ہیں جنہوں نے اس خطے میں سکھ مت کی تعلیمات کو پھیلانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پنڈت کرپا رام کی قیادت میں کشمیری پنڈتوں کے ایک وفد کی درخواست پر عبادت کی آزادی اور انسانی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے نویں گرو گرو تیغ بہادر کی خود قربانی کشمیر میں سکھ تاریخ کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔یہی وہ واقعہ تھا جس کی وجہ سے بہت سے کشمیریوں کو انسانی وقار اور مساوات کی جنگ میں چمکور کی جنگ میں دسویں گرو گرو گوبند سنگھ کی فوج میں شامل کیا گیا۔ اس خطے میں سکھوں کی بعد کی تاریخ بابا بندہ سنگھ بہادر کے بارے میں بتاتی ہے جو ایک متقی اور طاقتور سکھ تھے جنہوں نے مشرقی پنجاب کے علاقے میں ظالموں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1819 عیسوی میں کشمیر کو فتح کیا۔ 1819 سے 1846 تک ان کے دور حکومت میں جموں و کشمیر کے خطہ میں زراعت اور دستکاری میں ترقی کے ساتھ امن اور خوشحالی دیکھی گئی۔ جموں و کشمیر کے خطے میں سکھ خاندان کے دور کو رواداری اور ترقی کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ افغانوں کے برعکس، سکھوں کی حکمرانی نے انتہائی ضروری امن اور استحکام فراہم کیا جو خطے کی خوشحالی کی عکاسی کرتا تھا۔انہی کے دور میں وادی کشمیر میں کئی ترقیاتی منصوبے عمل میں لائے گئے اور لوگوں کو راحت رسانی کے لئے بہت سارے عوامی مفادات کے اقدامات اُٹھائے گئے ۔ آج بھی ان کے دور حکومت کی نشانیاں وادی کشمیر میںموجود ہیں۔کشمیر میں سکھ دور حکومت میں بھی کافی اُتار چڑھاﺅ دیکھے ان ہی کے دور میں افغان حملوآوروں سے بھی کشمیر کو بچالیا گیا ۔ تاریخی طور پر کشمیر کے سکھوں نے کشمیر کی ثقافتی، تعلیمی اور روحانی ترقی میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ کشمیر میں سکھ مذہب تمام تصوراتی مشکلات کے خلاف وقت کی کسوٹی پر کھڑا ہوا ہے۔ یہاں پر سکھ طبقہ نے بھی دیگر مذاہب سے وابستہ لوگوں کی طرح کئی مشکلات اور مسائب دیکھے لیکن سکھ طبقہ چٹان کی طرح حالات ووقعات کے مقابلے میں کھڑا رہا اور وادی کشمیر کے تمدن، تہذیب اور ثقافت میں اپنا کردار شامل کرتے گئے ۔ سکھوں نے ہمیشہ ہی یہاں پر بھائی چارے اور انسانیت کی مثالیں پیش کی ہیں۔ 1990کا خونی دور ہو یا 2005کا زلزلہ ہو یا پھر ہم 2010کے مخدوش حالات کی بات کریں یا پھر 2014میںتباہ کن سیلاب کی بات کریں گے ہر مشکل وقت میں سکھوں نے یہاں پر لوگوں کی بلا تفریق مذہب مدد کی اور ہمیشہ سے ہی کشمیریوں کےلئے اپنے محسن بنے رہے ۔
World AIDS Day: Reflecting on the Fight Against HIV/AIDS
World AIDS Day, observed annually on December 1, is a moment to reflect on the progress made in combating HIV/AIDS,...
Read more