محمد سلیم سالک
آج علامہ اقبال ؒ کی مناسبت سے کئی جگہوں پر سمینار ،مجالس اور مذاکرے منعقد ہوئے۔ہر محفل میں علامہ اقبال ؒ کے تئیں اظہار عقیدت کے پھول نچھاور کئے گے ۔ کہیں علامہ کے فلسفہ کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی گئی تو کہیں اقبال کی عصری معنویت کی دلیل پیش کی گئی ۔یہ سلسلہ ہر سال چلتا ہے اور آئندہ بھی جب تک عاشقانِ اقبال موجود ہیں چلتا رہے گا۔مجھے کالج کے دنوں کا واقعہ یاد آرہا ہے کہ اقبال انسٹی ٹیوٹ میں علامہ اقبال کے یوم ولاد ت پر پروفیسر جگن ناتھ آزاد کو ایک توسیعی لیکچر دینا تھا ،ان دنوں پروفیسر محمد امین انداربی اقبال انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر تھے ۔پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے علامہ اقبال کی زندگی اور شاعری پر ایک مفصل اور جامع تقریر کی ۔تقریب ختم ہوتے ہی طلباءنے پروفیسر جگن ناتھ آزاد کو گھیر لیااورذاتی زندگی کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ اگرچہ میں نے ان دنوں ہی پروفیسر موصوف کی کتاب ”اقبال اور کشمیر “ پڑھی تھی جس پر سوال کرنے کی بہت گنجائش تھی لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں بھی کوئی سوال پوچھوں ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت ہی دلچسپ باتیں کہیں ۔ مثلاً ان کے والد تلوک چند محروم علامہ اقبال سے اتنی محبت رکھتے تھے ،کہ بارہاعلامہ سے ملاقی ہوتے لیکن خودجگن ناتھ آزاد نے کبھی علامہ سے باالمشافہ ملنے کی ہمت نہیں کی ہے۔پاکستان کا پہلا قومی ترانہ بھی پروفیسر آزاد نے ہی تحریر کیا،جس کا ایک شعر یوں تھا ؛
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سرزمین پاک،اے سرزمین پاک
جب اس عاشقِ اقبال کا زندگی میں کوچ کرنے کا وقت آیا تو انہوں نے اپنا ذاتی کتب خانہ کشمیر یونیورسٹی کی علامہ اقبال لائبریری کو Donateکرنے کی وصیت کی ،جس کو بعد میں ان کے ورثاءنے عملی جامہ بھی پہنایا۔اس کتب خانے میں کتنی کتابیں تھیں اس کے بارے میں قبلہ عبداللہ خاور صاحب بخوبی بتاسکتے ہیں کیونکہ انہوں نے آنجہانی آزاد کی Personal collectionمیں بہت وقت گذرا ہے ۔میں نے بارہا چاہا کہ علامہ اقبا ل لائبریری میں جگن ناتھ آزاد کی ان کتابوں کو دیکھوں جن کو انہوں نے Donateکرنے کی وصیت فرمائی تھی ۔کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جگن ناتھ آزاد کی ذاتی collection بڑی عمدہ ہوگی۔اس سلسلے میں ،جب میں نے لائبریرین سے دریافت کیا،تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ،جس سے میں شش وپنچ میں پڑگیا کہ اب کیسے معلوم ہوگاکہ آنجہانی جگن ناتھ آزاد کی کلکشن کہاں پر ہے ۔کئی لوگوں سے بار بار استفسار کرنے پر لائبریر ی کے ایک ملازم نے تنگ آکر بے رخی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تم ساتویں منزل پر چلے جاو ،وہاں دیکھو۔میں
وفو رِشوق سے مملو لفٹ کی سہولیت یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سات سیڑھیوں کے زینے طے کرنے کے بعد ہانپتا کانپتا ساتویں منزل کی دہلیز پرپار کرنے میں کامیاب تو ہوا لیکن مجھے کہاں معلوم تھا کہ امتحان کی گھڑی اب آنے والی ہے ۔ جب میں نے سیکشن انچارج سے آنجہانی جگن ناتھ آزاد کی کتابوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بھی لاعلمیت کااظہار کیا۔میں نے موقعہ کی نزاکت کوسمجھتے ہوئے خود ہی الماریوں کے شلف جھانکنے شروع کئے۔تو کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد کمرے کے آخری سرے پر دو تین الماریاں بے ترتیبی سے رکھی ہوئیں تھیں۔نزدیکی سے مشاہدہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ آنجہانی آزاد کی کتابیں ان ہی الماریوں میں قید ہے ۔میرے لفظ ”قید“استعمال کرنے پر حیران ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ،کیونکہ اُس وقت میں جس کیفیت سے گذر رہا تھا اس کا انداز ہ لفظوں سے ممکن نہیں ۔پہلے تو میں کتابوں کی حالت دیکھ کر ششدررہ گیا کہ کیا سچ مچ یہ وہیں کتابیں ہیں جن کو پروفیسر آزاد نے متاع عزیز سمجھ کر زندگی بھر اپنے سینے سے لگایا تھا ۔کتابوں کی کسمپرسی اور بوسیدگی دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا ۔کتابیں الماریوں کے بجائے ایک ڈھیر کی صورت میں فرش پر بکھری پڑی ہوئیں تھی جن پر ایک انچ سے زائد گرد کی تہہ جم چکی تھی ۔جیسے کوڑا کرکٹ ایک جگہ جمع کیا گیا ہو۔چند لمحوں کے لئے مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا جب میں نے کتابوں کے ایک ڈھیر کو ہاتھ لگایا تومعمولی حرکت سے پورا ڈھیر بکھر گیا ۔کتابوں کے اوراق بوسیدہ ہوچکے تھے۔ جب میں نے سنبھل سنبھل کر کتابوں کی نوعیت دیکھی تو زیادہ تعداد اُن کتابوں کی تھیں جو اردو کے مقتدر ادباءو شعراء نے آنجہانی آزاد کو تحفتًا عنایت کی تھیں جن میں خصوصا رشید احمد صدیقی،آل احمد سرور ،،مشفق خواجہ ، سردار جعفری ،خلیل الرحمان ا عظمی ، وزیر آغا،احمد ندیم قاسمی،عصمت چغتائی ،قاضی عبدالودودوغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ کتابوں پر مختلف قسم کے تاثرات درج تھے ۔ایک صاحب نے یہاں تک لکھا تھا کہ ” اپنی تصنیف علامہ اقبال کے معنوی فرزند کے نام “ ،ایک اور کتاب پر قابل توجہ جملہ تحریر تھا” علامہ اقبال کے اس عاشق کی خدمت میں جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد اقبال پر پہلا سنجیدہ مطالعہ پیش کیا ،جبکہ اس دور میں اقبال کو شجرہ ممنوعہ قراردیا گیا تھا“۔ ان سب کتابوں پر بڑے بڑے ادیبوں کے Remarks بقلم خود موجود تھے ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنجہانی آزاد کس مرتبے کے عالم و فاضل تھے ۔ابھی میں کتابوں کی ناگفتہ بہہ صورت حال سے جھوج ہی رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ جگن ناتھ آزاد کی روح کتابوں کی حالت زار دیکھ کر جیسے مجھ سے گویا ہوئے کہ میں نے زندگی میں کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کیا جس سے مجھے شرمندگی اورخفت اُٹھانی پڑی ہولیکن آج میں اپنی وصیت پر نادم و شرم سار ہوں کہ میں نے جذباتی ہوکر صرف علامہ اقبال کے نام سے منسوب ”علامہ اقبا ل لائبریری“ کو پوری زندگی کا سرمایہ کیوں دیا ۔کاش میں نے بھی اپنے والد محترم تلوک چند محروم کی بات پر عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو جائداد کی وراثت کے ساتھ ساتھ اسے علم وادب میں بھی شریک رکھا ہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔یہ واقعہ ان ادبیوں کے لئے باعثِ عبرت ہے جو اپنے بچوں کو اپنی جائداد کا وارث تو بنالیتے ہیں لیکن کتابوں کی وراثت سے محروم رکھتے ہیں ۔