انسانی تہذہب ، تمدن کی تاریخ ہزاروں لاکھوں اور کروڑوںسالوں سے سفر کرتی آرہی ہے جس میں وقت وقت پر بدلاﺅ ہوتے رہے ہیں ۔ انسان نے رفتہ رفتہ ترقی کی اور یہی ترقی سماجی اور ثقافتی بدلاﺅ کاموجب بھی بنی ۔ قوموں کی تہذیب ایک دوسرے ممالک میں پھیلتی گئی خاص کر ثقافتیں، نظریات ، طرز زندگی، رسومات، عبادات، سماجی اور تہذیبی پھیلتی گئیں۔ اہم ، تاریخی اور تہذہبی مقامات بنتے گئے ، اورتہذیب نے اپنے نقوش چھوڑنا شروع کردی ۔ہم اگر دنیا بھر میں قدیم ورثاءپر نظر ڈالیں گے تو ہم پائیں گے کہ قدیم قوموں اور تہذیبوں کی روایت ان سے جڑی ہوئی ہیں جو ہمیں قدیم ثقافت اور روایت کی تاریخ سے آشناکرتے ہیں ۔ ہمیں ایسی یادگاریں ملتی ہیں جو کسی خاص قوم،تہذیب اور ثقافت کی علامت سے جڑی ہوئی ہیں۔ یادگاریں ایک ایسی تہذیب کی مثالیں ہیں جو اس کی سابقہ عظمت کو بتاتی ہیں اور اب بھی نظر آتی ہیں، ماضی اور حال کے درمیان ایک عبوری مقام کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اگرچہ کچھ یادگاریں اپنی سینکڑوں یا ہزاروں سالہ تاریخ کے دوران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، لیکن وہ اپنی ثقافتی اور روایتی اقدار سے ہمیں متاثر کرتی رہیں۔قدیم یاد گاروں سے عظیم قوموں مذہبی عقائد اور سلطنتوں کی شان وشوکت کا بھی پتہ بتادیتی ہے۔دنیا بھر کے عظیم اور قدیم شہروں اور ممالک کی طرح ہی کشمیر میں بھی انسانی بودوباش کی عظیم تواریخ ہے ۔اسی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو وادی کشمیر کی تاریخ میں ایک تواریخ جو کہ قدیم ہے ۔ کشمیر کی قدیم تواریخ کے بارے میں ہمیں پُرانی کتابوںسے ملتی ہے ۔یہ ہماری یادگاروں کو برقرار رکھنے کا جواز ہے۔ ہم کشمیر کے تاریخی ثقافتی ورثے کے بارے میں تب سے سیکھتے ہیں جب ہمیں اپنی مقدس کتابوں میں اس خطے کا نام ملتا ہے۔ کشمیر کی قدیم تہذیب سے جڑے بے شمار مقامات اور یادگاریں ہیں۔ وہ سابقہ شان و شوکت کی یادگار کے طور پر برقرار ہیں اور تہذیب کی طویل تاریخ کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یادگاریں ثقافتی شناخت کی علامت کے طور پر کام کرتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ثقافتی اہمیت کی حامل یادگاروں اور مقامات کو محفوظ کیا جانا چاہیے۔ کوئی بھی معاشرہ جو اپنے ماضی سے رابطہ کھو بیٹھا ہے اس کا مقدر ان غلطیوںکو دہرانا ہے جو پہلے سے کی گئی ہیں اور وہ اپنی بھرپور ثقافتی میراث سے کٹ گیا ہے۔کسی بھی قوم کی نشانی اور تواریخ اپنے میراث سے جڑی ہوتی ہے اور آنے والی نسلوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے میراث کی حفاظت کریں اور ان یاد گاری تہذیبی نشانیوں کو اپنے مستقبل کےلئے محفوظ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو ان تاریخی ثقافتی ورثے سے جوڑنے کےلئے ان تک رسائی کے اقدامات اُٹھانے چاہئے ۔ ان تاریخی مقامات ، نشانیوں کی اہمیت صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب ہم ان سے مناسب احتیاط اور احترام کے ساتھ ملیں اور ان کے پیش کردہ ثقافتی ، امن پسند اور ہم آہنگی کے پیغام کو قبول کریں۔ لیکن یادگار کی تاریخی انفرادیت کو برقرار رکھنے اور اس کی اصل پرانی شناخت کو برقرار رکھنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔کشمیر کی ایک عظیم تواریخ رہی ہے اور اس عظیم روایت کی عظیم نشانیاں بھی موجود ہیں جو ایک قومی خزانہ ہے جس پر ہمیں فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ اور رکھ رکھاﺅ کےلئے بھی اقدامات اُٹھانے چاہئے ۔ ان تواریخی جگہوں کو سیاحوں کےلئے دلچسپی کا مرکز بھی بنایا جاسکتا ہے اور اپنے ماضی کے بارے میں دنیا کو جانکاری بھی فراہم کی جاسکتی ہے لیکن ہمیں اپنی ثقافت کے بارے میں تعلیم دینے سے پہلے اپنی ثقافتی تاریخ پر درست اور مستند تحقیق کرنی چاہیے۔منفی نظریات والی طاقتوں سے ہمارے قومی ورثے کو کافی نقصان پہنچا ہے تاہم اس کو مزید نقصان پہنچنے سے بچانا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے شاندار ثقافتی ماضی سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ ہماری نسلوں کو اپنی شاندار ثقافت پر فخر محسوس ہو۔ کسی بھی قوم کی شناخت اس کے ماضی سے جڑی ہوتی ہے جو قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے اس قوم کی شناخت ختم ہوجاتی ہے لھٰذا اپنی شناخت برقرار رکھنے کےلئے ورثے سے جڑنا چاہئے ۔