کپواڑہ بٹ مظفر
کلاروس کپوارہ میں سات برن کے نام سے مشہور پتھر آج بھی موجود
مقامی لوگوں کے مطابق ہزاروں سال پہلے پتھر کے زمانے کے لوگوں کے چند اٹرات موجود ہے جنہیں دیکھنے کے لیے مقامی لوگوں کے سات سات ملک و بیرونی ممالک کے لوگ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں کلاروس کپوارہ میں پہنچ کر ان اثرات کو دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہے ۔مقامی لوگوں کے مطابق کلا روس کے گھنے جنگلات میں ترام کھنے کے نام سے مشہور جگہ جہاں پر کہیں کلومیٹر لمبا ایک غار موجود ہے جس کے اندر لوگ جانے سے ڈر محسوس کر رہے ہیں کیونکہ غار کے اندر روشنی کا کوئی زریعہ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے چاروں طرف غار کے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے ۔ اگرچہ ابھی تک کچھ نڈر لوگ غار کے اندر جا کر حقائق جاننے کی بے حد کوشش کی لیکن غار میں اندھیرے کی وجہ سے ان کی کوشش ناممکن ثابت ہوئی ۔جبکہ مقامی لوگوں کی قیاس آرائی کے مطابق ہزاروں سال پہلے کی انسانی زندگی جنہیں پانڈوں کے نام سے آج کے لوگ جانتے ہیں ۔ ان لوگوں کی بستی شاید یہاں پر موجود تھی جو آج کے دور میں ایک پہاڑ کی شکل اختیار کر چکے ہیں کیونکہ ایسے اثرات وہاں پر دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے یہاں پر ایک بستی موجود ہوا کرتی تھی جو بعد میں زمین بوس ہو کر ایک پہاڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ سات برن کے نام سے مشہور سینکڑوں کوئنٹل کا ایک پتھر شاندار کاریگری کے ساتھ تراش کر سات دروازے بنائے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے ایسے کاریگری کا کام انجام دیا گیا ہے جو آج کے دور میں ناممکن دکھائی دے رہا ہے ۔اس جنگل کے اوپر والے حصے میں ایک لمبا غار موجود ہے جس سے بڑے نرالے انداز میں کھود کر تیار کیا گیا ۔ اس غارکے بارے میں کوئی بھی شخص صحیح دلیل نہیں دےسکتا ہے۔ جب کہ تاریخ لکھنے والے لوگ بھی شاید اس غار سے بے خبر ہے کیونکہ تاریخی کشمیر کے نام سے مشہور کتاب میں بھی اس جگہ کا نام درج نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے مقامی لوگ مقامی لوگ اس غار کو جو کلاروس کپوارہ میں آج بھی موجود ہے جس کے متعلق لوگوں کی رائے ہے یہاں سے پرانے زمانے کے لوگ اس غار کے ذریعے روس کا سفر کر رہے تھے۔ لیکن دور حاضر کے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتے ہے کیونکہ آج کے دور میں ہے کسی بھی پہاڑ کو تراش کر جسے ہم ٹنڈل کے نام سے پکارتے ہے تعمیر کرنے میں کروڑوں روپے اور کہیں سال درکار ہے تب جا کر ایک ٹنڈل تعمیر ہوسکتی ہے ۔تو یہاں پر انسانی عقل حیران ہے کہ ہزاروں سال پہلے ایسی کونسی مشینری موجود تھی جس کے ذریعے اس پہاڑ کو کھود کر کہیں کلومیٹر لمبا یہ غار تعمیر کیا گیا ہے ۔ تو یہاں پر اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے ہیں یہ غار ہزاروں سال پہلے پانڈو کے دور میں تعمیر کیا گیا ہے ۔جبکہ مذکورہ جگہ کے آس پاس میں ایسے پتھروں کے نشانات موجود ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ پانڈو کی ایک بستی شایدہوا کرتی تھی ۔ آج کل کے لوگ ان اثرات کو دیکھ کر بڑے حیران ہو کر ان کا نظارہ کر کے اپنے آپ سے کہی سوالات کر رہے ہیں کیا واقعی دنیا میں ایسے بھی لوگ تھے جو سینکڑوں کوئنٹل پتھر اٹھا کر گھر تعمیر کر سکتے ہیں یا کسی بھی پہاڈ کو چیر کر راستہ ہموار سکتے ہے کیا واقعی دنیا میں ایسے لوگ موجود تھے اس کا جواب تاریخ لکھنے والے لوگ بہتر انداز میں دے سکتے ہے ۔ اس سلسلے میں جب ہم نے کہیں مقامی لوگوں سے بات کی تو وہ کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے سے قاصر ہے البتہ موجودہ حکومت سے گزارش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جگہ کو سیاحت کے نقشے پر لایا جائے تاکہ یہاں پر زیادہ سے زیادہ لوگ آکر نظارہ کر سکے اور مقامی کے لوگوں کے لئے روزگار کا وسائل پیدا ہو جائے۔