(سکندر بشیر)
43 دنوں تک چلنے والی شری امرناتھ جی یاترا کا آغاز 29 جون 2022 کو آخر دو سال کے وقفے کے بعد ہوا۔ اگرچہ رسمی طور یہ روحانی یاترا ہر سال ہوتی ہے، مگر کُووڈ-19 کی وبائی صورتحال کے پیش نظر 2020 اور 2021 کیلیے احتیاط کے طور پر اسے روکا گیا تھا۔
اگرچہ دو سال کے بعد کُووڈ-19 کی وجہ سے لگاتعطل ٹوٹ ہی گیا ، لیکن ہماری ریاست جموں و کشمیر کی بد نصیبی کا حال یہ ہے کہ یہاں ابھی بھی خوف اور ہراس کا تعطل مسلط ہے۔ یہاں اگر زندگی کی بھاگ دوڑ جاری و ساری بھی ہے مگر فضا میں خوف و ہراس بھی رواں ہے۔ٖفضا میں اس خوف و ہراس کی وجہ حال ہی میں کچھ معصوم لوگوں کا قتل ہے۔ جنمیں امبرینہ، رجنی بالا رہول بٹ، ستندر کور، اورمکھن لال بندرو قابل ذکر ہیں۔ ان عام اور معصوم لوگوں کے قتل نے زندگی کی فضا کو خوف و ہراس سے مُکدر کیا ہے۔
ایک طرف ہماری وادی میں دہشتگردانہ کاروائیاں ہو رہی ہیں،جس نے ماحول میں خوف و ہراس کی ایک گھٹن پیدا کی ہے، دوسری طرف، اسی اثنا میں، آٹھ لاکھ یاتریوں جسمیں جواں لڑکیاں، جواں لڑکے اور بوڑھی عورتیں اور بوڑھے آدمی شامل ہیں، کے حفاظتی انتظامات آپ میں ایک بہت ہی بڑا اور گھمبیر چلینج ہے۔
کسی بھی ذی حس آدمی کے لیے یہ بات سمجھنی مشکل نہیں ہے کہ جس جگہ حال ہی میں قریبا پچیس تیس دہشت گردوں کو مارا گیا ہو، اور جہاں کچھ معصوم لوگوں کو بے گناہی کے جرم میں دن دھاڑے دہشت گردوں نے قتل کر دیا گیا ہو، وہاں کے خوف زدہ اور گھٹن زدہ ماحول میں آٹھ لاکھ یاتریوں کے حفاظتی انتظامات باہیں ہاتھ کا کھیل تو نہیں ہوسکتا ہے۔ اگرچہ حکومت تین درجی (تھری ٹائیر) حفاظتی انتظام میں اپنی کو ششیں بروئے کار لارہی ہیں لیکن اس میں کلیدی رول بہر حال ہماری فوج کا ہے۔ ان حفا ظتی اقدامات میں سی سی ٹی وی کیمرہ اور ڈُرون بھی شامل کیے گییہیں،مگر رات اور دن کی چوکسی اور قدم بہ قدم یاتریوں کی خفاظت کی بھاری ذمہ داری بہرصورت ہماری فوج کے کندھوں پر ہے۔
خوف اور ہراس کے اس گھٹن زدہ ماحول میں اگر تھوڑی سی اطمنان کی سانس کشمیر کا ایک عام آدمی بھی لے رہا ہے وہ فوج کی وجہ سے ہے۔
اگر گہرائی میں جاکر دیکھا اور سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری فوج فقط او رصرف آٹھ لاکھ یاتریوں کی حفاظت کا کا م انجام نہیں دے رہی ہے بلکہ یہ ان تمام متعلقین ،جن میں پہلگام کی غریب عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، کی حفاظت کا عظیم ذمہ بھی ہے جو ہماری فوج انجام دے رہی ہے۔ یاتریوں کی اس یاترا کے ساتھ پہلگام وادی کے ہزاروں چولہے جُڑے ہیں۔ اسطرح یاتریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ یہ ہزاروں غریب چولہوں کی بھی حفاظت ہے۔ دہشت گردوں کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ عوام افلاس اور تنگدستی میں گر جائے تاکہ انہیں جوانوں کو چند روپیوں کے عوض گمراہ کرنے میں آسانی ہو۔ دہشت گرد ہمارے عوام کا صرف جان و مال کا نقصان نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہاں کی عوام معاشی اعتبار سے مفلوک الحال ہو جائے تاکہ وہ انکا استحصال کر سکیں۔ ان ہڑ تالوں کے پس منظر میں دہشت گردوں کی ایک شاطرانہ اسٹریٹجی یہ بھی تھی۔
اگرچہ یاتریوں کی سکورٹی کی ذمہ داری ایک عظیم ذمہ داری ہے جسمیں معمولی سی غفلت بھی ایک قیامت ثابت ہو سکتی ہے، مگر ڈیڑھ مہینہ کے بعد بالآخر یہ ذمہ داری اپنے انجام کو بہ آشتی و شانتی پہنچ ہی جائے گی، لیکن وادی میں امن اور شانتی کے حوالہ سے ہماری فوج مسلسل بارہ مہینے جھٹی رہتی ہے۔
ہماری فوج کی ذمہ داریوں میں جہاں کشمیر کے لاکھوں عوام کی ذمہ داری ہے، وہی امن اور آشتی کے لیے ہماری فوج مشن سدھ بھاؤناکے تحت ایجوکیشن، ہیلتھ، معشیت اور اسپورٹس کے اہم شعبوں میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے۔
مشن سدھ بھاؤنا کے تحت وادی میں ستائیس (27) اسکول چل رہے ہیں۔ جو انفراسٹرکچر کے لحاظ سے نہایت معیاری ہیں۔ اور ان میں اکثر غریب عوام کے بچوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان اسکولوں میں اب بچوں کی تعداد سینکڈوں سے ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ اسطرح سے ہماری نونہال نسل ہمارے فوج کی عرق ریزی اور جانفشانی سے امن، استحکام اور ترقی کے ساتھ جڑے جارہی ہے۔ یہ ہماری فوج کی سماج کے تئیں ایک بہت ہی عظیم اور لائق خراج تحسین کنٹریبیوشن ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک عظیم تواریخی کام ہے۔ جسکی شاید ہی کسی اور ملک کے فوج میں مثال ملے۔
مشن سدھ بھاؤنا کے تحت وادی کے دور دراز اور پچھڑے لوگوں کے صحت عامہ کے حوالے سے ہماری فوج میڈکل کیمپس منعقد کر رہی ہے۔ ان کیمپس کے اندر شعبہ وٹرنری بھی شامل کیا جاتا ہے۔ تاکہ دور دراز کے ان علاقوں کے لو گوں کے مال ومویشی ،جن پر انکی آمدنیوں کا انحصار ہوتا ہے، کو بھی طبعی سہولیات میسر کی جائیں۔اسطرح کے ابھی تک 40 کے قریب میڈکل کیمپس آرگنائیز کیے گیے ہیں- گذشتہ سال روٹری کلب پونے اور بنا سرحد ورلڈ فاؤنڈیشن کی کارڈینیشن میں سدھ بھاؤنا نے بارہمولہ میں ایک بہت بڑے کیمپ کا انعقاد کیا۔ اسی طرح تیاکشی لداخ میں بھی ایک بڑے کیمپ کا انعقاد کیا گیا جسمیں مقامی لوگوں کے علاوہ انکے لائیو اسٹاک کو بھی طبعی سہولت سے نوازہ گیا۔
سدھ بھاؤنا وُومن امپاورمنٹ پروگرام کے تحت سلف ہیلپ گروپس بنائے گئے۔ جن کے ذریعے عورتوں کو سلائی اور کڑھائی کی مشینوں کو چلانا سکھایا جاتاہے اور خام مال بنوانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسطرح سے جہاں ہماری گھریلو عورتیں بھی ملک کی معشیت میں اپنا ہاتھ بٹا رہی ہیں وہی انکی اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی آشائشیں چلی آتی ہیں۔
اسپورٹس کے شعبہ میں بھی سدھ بھاؤنا قابل فخر و ستائش کام ہماری فوج نے سدھ بھاؤنا مشن کے ذریعے انجام دئے ہیں۔ ہماری وادی کی ایک ہونہار لڑکی مس تجمل اسلام نے سدھ بھاؤنا کے اسپورٹ سے اٹلی میں کک باکسنگ میں گولڈ مڈل حاصل کیا ہے۔
ہماری فوج ریاست کے طول و عرض میں سماجی حیات کے ہر شعبے میں اپنی گراں قدر خدمت انجام دے رہی ہے۔ اگرچہ اسوقت یاترا کی حفاظتی ذمہ داری اول درجہ پر ہے مگر ہماری سماجی زندگی کے ہر شعبے کے ساتھ، امن و امان اور ترقی و خوشحالی کی خاطر، ہماری فوج جُڑی ہے۔
The Smile that Defined You, A Tribute to Prof. Ravina Hassan
I have been more like an Englishman than a Frenchman here while attempting this tribute. The English man observes E.M...
Read more