(سکندر بشیر)
پاکستان قدرتی وسائل کے اعتبار سے آپ میں ایک خود کفیل ملک ہے۔ اس ملک میں قدرتی وسائل کا بنڈار ہے۔ ان قدرتی وسائل میں پانی، معدنیات، اور جنگلات کے علاو ہ زمین کا ایک عظیم حصہ زرحیزہے جسمیں اقسام ہا فصلیں اگتی ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اخباروں اور ٹی وی چنلوں میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں داخل کیا جائے گایا پھر یہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے ؟اس سوال کا جواب پاکستان کے کالم نگاروں کی زبان سے ہی سنا جائے تو بہتر ہے۔ تاہم اس سوال کے جواب سے پیشتر پاکستان کے وسائل پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا چاہیں گے۔
شعبہ معدنیات میں پاکستان میں کوئلہ جسے بلیک گولڈ بھی کہا جاتاہے وافر ہے ۔اسکے ذخائرکاتخمینہ ایک سو پچھتربلین ٹن لگایا گیا ہے۔اسکی قیمت قریب قریب چھ سو اٹھارہ بلین خام تیل کے برابر ہوگی ۔جوتیل کے زخائر کے مقابلے میں یہ دنیا کے چار بڑے ملکوں کی مقدارسے دوگناہے۔
قدرتی گیس پاکستان کا اہم وسیلہ ہے۔ایک تخمینہ کے مطابق اسکا بنڈار آٹھ سو پچاسی عشاریہ تین بلین مکعب میٹر ہے۔ خام تیل کا تخمینہ قریبا تین سو چھبیس ملین بیرل سے زیادہ ہے۔اسیطرح یورینیم، معدنی نمک، کاپر، سونا، لوہا،اور جواہرات وغیرہ کی بڑی بہتات اس ملک کے اندر موجود ہے۔
شعبہ زراعت میں پاکستان میں جن اشیاوں کی پیداوار ہوتی ہے ان میں کیش کراپ کپاس اس ملک کی سب سے اہم اور بڑی کیش کراپ فصل ہے۔گنا، تمباکو اور تیل کے بیجوں کا بھی بنڈار اس ملک میں پیدا ہوتا ہے۔یہ فصلیں بھی کپاس کی طرح کیش کراپ ہیں ۔اور یہ فصلیں اس ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔
کسی بھی ملک میں اگر وسائلوں کا کتنا بھی بنڈار کیوں نہ ہو لیکن اگر اس ملک کے اندر چار چیزیں نہ ہوں تو ان خزانوں کا ہونا اور نہ ہونا ایک جیسا ہے۔اور وہ چار چیزیں ہیں: ذہانت، دولت،دیانتدارانہ تجارت، اورمخلصانہ سیاست۔ ذہانت سے وسائل کو استعمال کرنے کی اسکیمیں تیار کی جاسکتی ہیں، دولت سے انفراسٹکچراور صنعت تیار کی جاسکتی ہے، تجارت سے دولت بڑھائ جا سکتی ہے ،اور سیاست سے اسکی منصفانہ تقسیم اور حفاظت کی جا سکتی ہے۔اور یہاں پر یہ بات ذہن نشیں ہو کہ انہی چار چیزوں کے اتحاد سے جو پانچویں چیز وجود میں آتی ہے وہ چیز ملک کی معشیت کہلاتی ہے۔ اب اگر کسی بھی ملک کے متعلق یہ خبریں آرہی ہوں کہ فلاں ملک آی۔ایم۔ایف کے گرے لسٹ میں گر رہا ہے یا دیوالیہ پن کی کگار پر ہے تو جان لینا چاہیکہ اس ملک کی یا ذہانت میں قحط پڑا ہے، یا اسکی دولت پر چور بیٹھے ہیں یا اسکی تجارت میں سے دیانت نکل گئی ہے، یا اسکی سیاست میں خباثت داخل ہوئی ہے یا پھر ان چاروں شعبوں میں فتور واقع ہوا ہے۔
ٹی ۔ آر۔ٹی پاکستان نے اقوام متحدہ کے حوالے سے اپنے ۲۲ مئی۲۲۰۲ کے اپدیٹ میں لکھا ہے: اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ برائے سال ۹۱۰۲ میں کہا گیا ہیـــــــ کہ چین اورسعودی عرب سے ملنے والی امداداور عالمی مالیاتی فنڈ سے لیے گئے قرض کے ملنے کے باوجود بھی پاکستان کا معاشی بحران دور نہیں ہو سکا۔ یہاں پر یہ سوال ہے کہ بالآخر یہ مالی امداد اور یہ قرض جاتا کہاں ہے؟ کیا اسے آسمان اچک لیتا ہے یا پھر زمیں نگل لیتی ہے ؟ اسکا جواب وائس آف امریکہ کا کالم نگار علی فرقان مسٹر اشفاق حسن کو کُو ٹ کر تے ہوئے لکھتے ہیں: ملک جو قرضوں میں ڈوب رہا ہے وہاں ہر سال اربوں روپے مالیت کی مہنگی گاڑیاں منگوائ جاتی ہیں۔ امراء کے کتوں اور بلیوں کے کھانے اور شیمپو صابن تک باہر سے آتے ہیں۔
یعنی ملک پاکستان کی سیاست میں جو اشخاص بر سر اقتدار رہتے ہیں ان میں بجُز استثناء کے سارے خائن ہیں۔ جو اپنے معصوم عوام کی امانتوں پر دن دہاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں ۔اپنی چھوڑ جو اپنے پالتوں جانوروں پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں جو کہ فی الحقیقت پاکستانی عوام کا حق ہے مگر انکو نوالوں کو ترساتے ہیں۔ تو انصاف کریں کیا یہ ملک کبھی بھی ترقی کر سکتا ہے !
پاکستانی معشیت کا سب سے بد نما رخ بی۔ بی ۔ سی اردو کے کالم نگار فاروقْ عادل نے سامنے لایا ہے۔ کالم نگار ایک تحقیقی رپورٹ کی حوالے سے ،جو پاکستان انسٹیوٹ آف اکنامک ڈیولپمنٹ (پی۔آئ۔ای ۔ڈی )کے وائس چانسلرندیم الحق نے تصنیف کیا ہے، لکھتے ہیں کہ : اسٹاک مارکیٹ ( پاکستان) پر اکتیس خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔اور اسٹاک مارکیٹ میں بیشتر دولت بھی انہی اکتیس خاندانوں کے ہاتھ میں کھیلتی ہے۔
مذکورہ کالم نگار اپنے کالم میں متذکرہ رپورٹ کے حوالے سے ایک حیران کردینے والی بات سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ چونکہ لکھتے ہیں: اسٹاک مارکیٹ حقیقت میں چند سرمایہ کاروں کی گرفت میں ہے۔ اور کالم نگار نے ان چند سرمایہ کاروں کے جھتہ کو اشرافیہ کا محدود کلب کہا ہے جو ایک نیٹ ورک میں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ محدود کلب بس انہی خاندانوں کے افراد کے لیے مخصوص ہے جن کا اسٹاک مارکیٹ پر اجارہ قائم ہے۔
اسی کالم میں ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی کے حوالے سے لکھا گیا ہے: یہ کلب معشیت کے مختلف شعبوں کے با اثر افراد پر مشتمل ہے ۔ جس میں بڑے تاجر، درآمد و برآمد کنندگان، ذرائع ابلاغ ،بعض مذہبی طبقات، اقتصادی ٹیکنوکریٹس اور نجکاری کے نام پرکوڑیوں کے مول قومی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے شامل ہیں۔جنہیں بعض اوقات فیصلوں کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں کی کمک بھی حاصل ہے۔ یعنی اس ملک کی بد بختی کا حال یہ ہے کہ اس کی عدلیہ بھی اسی کلب کا حصہ ہے جس نے ملک کی ساری معشیت کو اژدھا کیطرح اپنی کنڈلی میں دبوچ رکھا ہے۔
اشرافیہ کے اس کلب کے سیاسی اثر و نفوز کا حال ڈاکٹر صدیقی کے الفاظ میں کالم میں یوں بیان ہے: جنرل مشرف کے زمانے میں آئیل مارکٹنگ کمپنیوں نے کئی ہزار ارب روپے کا ناجائز منافع کمایا۔جس کا انکشاف سابق قائم مقام چیف جسٹس بھگوان داس نے اپنی غیر معمولی رپورٹ میں کیا تھا! یہاں ناجائز منافع سے آخر مراد کیا ہے؟ یہی کہ چند لوٖگوں نے ملی بھگت کرکے عوام کے پیسوں پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ اس ملک کو آپ اربوں نہیں کھربوں امداد دیں اسکی اس بدترین حالت میں کوئ واضع فرق نہیں آسکتا ہے۔کیونکہ اس ملک کا پارلمنٹ سے لیکر عدلیہ تک اور عدلیہ سے لیکر اسٹاک مارکیٹ تک سب کاسب ایک نیکسس ہے، چوروں چکاروں کا ایک کلب ہے یا یوں کہیں علی بابااور چالیس چوروں جیسا ایک جھتہ ہے جو ملکر بیس کروڈ عوام کو رات دن لوٹتا رہتا ہے۔
یہ مختصر سا خاکہ جو پاکستان کی چوروں اورچکاروں میں گری اور پھسی معشیت کا سامنے آرہا ہے۔اس سے ان باتوں پر مہر تصویب ثبت ہوتی ہے کہ پاکستان صرف گرے لسٹ میں ہی نہیں آئے گا بلکہ اس کے بکھر جانے کے بھی خدشات موجود ہیں۔ کیونکہ جب کروڑہا کروڑ لوگوں کی مشترکہ دولت کو چند ایک ہزار لوٹ رہے ہوں تو ایسی حالت میں ایسے ملک کا متحد رہنا جو وفاق سے وجود رکھتا ہو بڑا محال ہے۔
Fida Firdous