گھڑیال نیوز ڈیسک
وادی کشمیر میں دو سال کے بعد امر ناتھ یاترا شروع ہونے جارہی ہے جس سے جموں وکشمیر کے لوگوں خاص کر سیاحت اور دوسرے شعبے سے جڑے لوگوں کے چہرے کھل اُٹھے ہیں کیونکہ پچھلے دو برسوں کے دوران کووڈ کی وجہ سے یاترا نہ ہو سکی۔ گزشتہ دو برسوں میں کورونا کی وجہ سے یہ یاترا ہو ہی نہیں پائی جس کا خمیازہ کشمیری معیشت کو بھی بھگتنا پڑا اور سیاحت نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کے تمام کل پرزے ڈھیلے پڑ چکے تھے تاہم اس سال جس طرح پہلے روز سے سیاحتی شعبہ سے زور پکڑا ہوا ہے اور اب تک لاکھوں سیاح پہلے ہی وارد کشمیر ہوچکے ہیں تو ایسے میں اگر امرناتھ یاترا متعین شیڈول کے مطابق مکمل ہوجاتی ہے تو کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعدادمیں مزید8لاکھ کا اضافہ ہے۔کون نہیں جانتا کہ جو یاتری گپھا کے درشن کیلئے آتا ہے ،وہ کشمیر میں پھر کچھ دن گزار کے ہی واپس جاتا ہے اور اس دوران وہ کشمیر کے صحت افزاء مقامات سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ کہ ہے کہ جتنی زیادہ یاتریوں کی نقل و حمل ہوگی ،اْتناہی کشمیر کے سیاحتی مقامات پر بھیڑ رہے گی اور جتنا بھیڑ رہے گی ،اْتنا فائدہ ہوگا کیونکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔جہاں تک امر ناتھ یاترا اور اس کے انتظام و انصرام کا تعلق ہے تو بلا شبہ سرکاری سطح پر انتظامات کئے گئے ہیں تاہم کون یہ بھول سکتا ہے کہ یہ یاترا کشمیر میں مذہبی بھائی چارہ کی زندہ علامت رہی ہے اور ماضی قریب تک امرناتھ شرائن بورڈ کے قیام سے قبل مقامی مسلم آبادی کے عملی تعاون سے ہی یہ یاترا ممکن ہوپارہی تھی۔کشمیری عوام نے روز اول سے اس یاترا کا خیر مقدم کیاہے اور حق بات تو یہ ہے یہ گپھا دریافت کرنے والے بھی کشمیری مسلمان رہے ہیں جس کے بعد پہلگام کا وہ ملک خاندان برسوں تک اس یاترا کی نگرانی پر مامور ہوا کرتا تھا۔اب جبکہ انتظامات کو معیاری بنانے کیلئے باضابطہ شرائن بورڈ بن چکا ہے تاہم یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ آج بھی یہ یاترا مقامی مسلم برادری کے عملی تعاون سے ہی ممکن ہوپارہی ہے اور پہلگام و بال تل کے بیس کیمپوں سے لیکر گپھا تک جس طرح کشمیر کے مسلمان یاتریوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر میں آج بھی مذہبی بھائی چارہ قائم ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مذہبی منافرت یہاں پنپ نہیں سکی۔دراصل کشمیر کا صوفی کلچر یہاں کے ہر فرد کے رگ و پے میں ہے اور کشمیر کا شاید ہی کوئی باشندہ مذہبی منافرت پھیلانے کا مرتکب ہوسکتا ہے کیونکہ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ دنیا کی سار ی مخلوق ایک خالق کی بنائی ہوئی ہے جہاں ہم سب کو پیار و محبت کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور اس دنیا میں کئے گئے اعمال کی سزاو جزا دوسری دنیا میں ملنی ہے۔یہ وہ نظریہ ہے جو کشمیر کو مذہبی بھائی چارہ کی آماجگاہ بنا چکا ہے اور آج بھی یہاں کسی طرح کا کوئی خلفشار نہیں ہے۔ یاتریوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کی خاطر وادی کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو وقف کیا۔ بالہ تل اور پہلگام میں یاتریوں کو پوترا گھپا تک لیجانے میں وادی کشمیر کے مسلمان ہی پیش پیش ہیں ۔ لہذا امر ناتھ یاترا بھائی چارے کی ایک زندہ مثال ہے اور اس کے ذریعے وادی کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ کشمیر کے لوگ زندہ دل قوم ہے اور اس قوم نے ہمیشہ سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ امر ناتھ یاترا سالہا سال سے جاری ہے یہ مذہبی ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ہے۔ رواں سال امر ناتھ یاترا کو شروع کرانے میں موجودہ انتظامیہ نے سخت محنت کی اور اس کا ثمرہ یہ نکلا یہ اس برس ریکارڈ توڑ تعداد میں یاتریوں کی وادی آمد متوقع ہے جس کے پیش نظر سیکورٹی کے بھی پختہ انتظامات کئے گئے ہیں۔ جموں وکشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے گزشتہ دنوں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اس سال ریکارڈ توڑ تعداد میں یاترا کشمیر آئیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ یاترا کو بہ احسن خوبی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر سبھی طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں۔ وادی کے لوگوں بھی یاترا کے شروع ہونے کا انتظارکرر ہے ہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ یاتریوں کا کشمیر آنا یہاں کے لوگوں کے لئے سود مند ثابت ہوگا ۔ یاتری نہ صرف پوترا گھپا کے درشن کیلئے آتے ہیں بلکہ وادی کشمیر کے صحت افزا مقامات پر بھی وہ آتے ہیں جس وجہ سے یہاں کی معیشت کو چار چاند لگ جا تا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس سال یاترا بہ احسن خوبی پایہ تکمیل تک پہنچے گی جس سے یہاں کی معیشت صورتحال کو بھی آکسیجن فراہم ہوگا۔ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں ہی اس سال کی امر ناتھ یاترا میں ریکارڈ توڑ یاتریوں کی آمد متوقع ہے۔
Candlelight march held at Kulgam in memory of the supreme sacrifice of security officers at Kokernag
KULGAM, SEPTEMBER 14: Civil society members in Kulgam today hold a candlelight march in memory of the supreme sacrifice/ martyrdom...
Read more