پاکستان کا گلا پھاڑپھاڑ کے یہ کہنا کہ وہ کشمیروں کا اخلاقی مددگار ہے سفید اور بدترین جھوٹ ہے ۔ اس قول کا اصل حقیقت کے ساتھ دُور دُور کا واسطہ نہیں ہے ۔ کیا کویء اخلاقی مدد گار ایسے شخص کو جس کے ساتھ وہ واقعی ہمدردی رکھتا ہو اور اسکی سچ میں مدد کر رہا ہو، چاہے گا کہ اسکا گھر معاشی طور بد حال ہو جائے، اسکے بچے یتیم ہوجائیں ،اور اسکی بیوی بیوہ ہوجائے;238; اسکے گھر بار کی زندگی تباہ و برباد ہوجائے;238; اسکی زندگی کا پل پل اسکے لیے قیامت ہوجائے;238; دنیا کے کسی بھی ایسے شخص کو، کسی بھی ایسے گروہ کو، اور کسی بھی ایسے ملک کو اخلاقی مدد گار نہیں کہا جا سکتا! بلکہ ایسے کسی بھی شحص، گروہ، یا ملک کو ٹھگ یا سفاک یا بربر کہا جایئے گا جسکا اخلاق، ہمدردی، اور اعانت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔
کشمیروں کا یہ اخلاقی مددگار، یعنی پاکستان،قبائلیوں کو کشمیر میں بیج کر انکی اخلاقی مدد اسطرح کرتا ہے کہ یہ قبایلی وحشی درندے کشمیری عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں ، مکانوں کو آگ لگا دیتے ہیں اور اثاثے لوٹ لیتے ہیں ۔ عورتوں سے جہاں عصمتیں چھین لیتے ہیں وہی ان سے انکے سہاگ بھی لوٹ لیتے ہیں ، بچوں سے جہاں انکا بچپن چھین لیتے ہیں وہی انکے سروں سے انکے سائے بھی تباہ کر جاتے ہیں ! اسطرح کشمیروں کے یہ اخلاقی مددگار انکی اخلاقی مدد کرتے ہیں ۔ ایسی اخلاقی مدد جسکے خوف اور ہراس اور سفاکیت کی گونجیں آج بھی کشمیر کی گلیوں میں سنایَ دیتی ہیں ۔ آج بھی جب وہ دلدوز اور ددردناک کہانیاں دہرایء جاتی ہیں تو روح کانپ اُٹھتی ہے ۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے کالم نگار الیاس خان اپنے کالم: تقسیم بر صغیر کے ستر سال: جب قبائلی جنگجووں نے کشمیر پر دھاوا بولا میں قبائلوں کی سفاکیت کا نقشہ اسطرح کینچھتے ہیں : گلیاں تباہی کا نشاں بن گئیں تھیں ، تباہ شدہ عمارتیں ، دکانوں کا ٹوٹا ساماں ، نذر آتش کیے جانے والے سامانکی راکھ، اور مقامی افراد کی لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ دریا میں بھی لاشیں تیرتی دکھائی دے رہی تھیں ۔ اسی کالم میں آگے لکھتے ہیں : وہ سب (قبائلی)جنگ کے دوران حاصل کیے ہوئے لوٹ کے مال کے ساتھ واپس آئے تھے ۔ اور کئی اپنے ساتھ عورتیں لائے تھے ۔
کیا ایسا ہی ہوتا ہے کسی کا اخلاقی ہمدرد ۔ ! کیا کسی کا اخلاقی ہمدرد اسکی بہوبیٹی پہ ہاتھ ڈالتا ہے ۔ ! کیا کسی کا اخلاقی ہمدرد اسکا مکان اور گھر بار جلاتا ہے ۔ ! کیا کسی کا اخلاقی ہمدرد اسکا اثاثہ لوٹتا ہے ۔ کشمیر اور کشمیریوں کا یہ اخلاقی ہمدرد اپنی ہمدردی اسطرح ظاہر کرتا ہے کہ یہ انکے جوانوں کے ہاتھوں میں بندوق تھما دیتا ہے ۔ یہ انکے ہاتھوں میں گرنیڈ اور دھماکہ خیز مادہ تھما دیتا ہے ۔ یہ انکو قومی اثاثہ جیسے اسکول، پل اور اسپتال وغیرہ جلانے کی تعلیم دیتا ہے ۔ اربوں کھربوں کا اثاثہ خاکستر کرایاجاتاہے ۔ !
یہ اخلاقی ہمدردکشمیر کے جوانوں کو خاک اور خون کے وحشیت ناک کھیل میں دھکیل دیتا ہے ۔ خاک اور خون کے اس کھیل میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری عورتیں بیوہ ہوگئیں اورہزاروں کی تعداد میں بچے یتیم ہوگئے ۔ ! مکاری، عیاری، اور بدترین خونی سیاسی کھیل میں مخبری کے نام پر ہزاروں سیاسی ورکر مروائے گیے ۔ ! خاک اور خون کے اس کھیل میں ہزاروں خانماں تہہ و بالا ہوگئے ۔
کشمیر اور کشمیر یوں کے اس اخلاقی ہمدرد نے ہر اس آواز کو خاموش کر دیا جسکے متعلق بھی اس نے گمان کیا کہ یہ سچ کی آواز ہو سکتی ہے ۔ یہ وہ آواز ہو سکتی ہے جو اسکے اس بدترین جھوٹ کا نہ صرف پردہ چاک کر سکتی ہے بلکہ اس جھوٹ کے خلاف سینہ سپربھی ہو سکتی ہے! اس نے چنگیزیت کی سولی پر مولوی فاروق، قاضی نثار اور عبدالغنی لون اور مجید ڈار وغیرہ کو مصلوب دیا اور ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا ۔
خاک اور خون اور تہذیبی جارحیت کی حدیں پار کرتے ہوئے، کشمیر اور کشمیریوں کا یہ ہمدرد کشمیر کی جوان نسل کو منشیات میں دھکیل رہا ہے ۔ صرف اسلیئے کہ منشیات کی لت لگے جوانوں کو من چاہے کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ انڈیا ٹوڈے میگزین نے جموں کشمیر کی انتظامیہ کی سروے کے حوالے سے جو ۲۰۱۹ میں منعقد کیگئی تھی نے ایک چونکا دینے والی بات سامنے لائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: کچھ چھ لاکھ لوگ جو کل آبادی کا ساڑھے چار پرسنٹ ہے کسی نہ کسی طرح کے منشیا تی عادت میں ملوث ہیں اور ان میں نوے فی صد سترہ سے تنتیس عمر کے جوان ہیں ۔
کشمیر ی عوام کا یہ اخلاقی اور سیاسی ہمدرد اصل میں کشمیریوں کا لُٹیرا ہے ۔ جس نے انکی عصمتیں لوٹیں ۔ اثاثے لوٹے ۔ جوانوں کی دو نسلیں لوٹیں ۔ رشیوں کا وہ کلچر لوٹا جس میں جب اگر کسی کا حادثاتی طور پہ قتل ہو جاتا، تو شام کے وقت میں اُفق کی سرخی دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ مقتول کا خون ناحق ہے ۔ ! مگر پچھلے بتیس سالوں سے یہ کشت و خون اب جیسے عام سی بات ہوگئی ہے ۔ اسی طرح تیس پنتیس سال پہلے منشیات کا ذکر بھی کشمیری کلچر میں ناپید تھا،عادت کی تو دور کی بات تھی!
کشمیری عوام جتنی جلدی اس مکار اور عیار کے اصل چہرے سے باخبر ہوجائے اتنا ہی اسکے سماجی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی استحکام کے لیے خوش آیند بات ہے ۔
bashirahmadkhan330@gmail