Aaliya Syed
ہزاروں سال نر گس اپنی بے نو ری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہو تی ہے چمن میں دید و ر پیدا
علم وہ زیو ر ہے جو انسان کو اشر ف المخلوقات بنا دیتی ہے تعلیم حاصل کر نا ہر مذہب میں جا ئز اور فرض ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم یا معاشر ے کے لئے تر قی کا ضا من ہے۔ جیسا کہ ہم جا نتے ہیں کہ کشمیر صفیوں ، بزرگو ں ، سنتوں ، اور مشائخوں کا ذریعہ رہا ہے۔
کشمیر ی فطرت کے اعتبار سے امن پسند ہیں یہاں کی مہمان نو ازی ، آپسی بھا ئی چارہ ، باہمی تال میل و غیرہ پو ری دنیا میں مشہور ہیں ۔ لیکن اب یہاں کے دلدور مناظروں نے کشمیر یوں کو تشدد کی سنگین واردتوں میں شامل کیا۔ تعلیم جو ایک ہستی کو سنو ار نے کا ذریعہ تھا لیکن اب یہی تعلیم یا فتہ نو جوان آگ کو بڑ ھکا نے کی کو شش میں لگے ہیں ۔ وجہ صرف یہاں کی خون ریزی اور ماراماری ہے کیا عالمی سطح پر غو ر کیا گیا کہ یہاں کے بچے تعلیم کے بجا ئے بندوق کی طرف جا رہے ہیں ؟ کیا تعلیم کے بجا ئے بندوق میں امن و سکون ہیں ؟ ہما رے تعلیم یا فتہ نو جوان قوم کو سہو لیت فراہم کر نے کے بجا ئے ایک بہت بڑے صدمے میں لو گوں کو دھکیل رہے ہیں ۔ جبکہ تعلیم ہمیں ادب اور انسانیت سکھا تہ ہیں ۔ والدین خون پسینہ ایک کر کے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو آفیسر کے روپ میں دیکھنا پسند کر تے ہیں ۔ مگر افسوس آفیسر کے بجا ئے وہ عسکریت کی شکل اختیار کر تے ہیں ، ذرا سو چئے والد ین کی محنت ، اُ ستادوں کی محبت اور سماج کی محبت و غیرہ مل کر ایک منٹ میں راکھ بن جا تی ہیں ۔ اور ہر چیز رائیگان ہو تی ہیں ۔
جہاں تک سیاستدانوں یعنی سیاسی حکمرانوں کا تعلق ہے بہت حد تک اس بڑ ھکتی ہو ئی آگ کو وہ روک سکتے ہیں ۔ لیکن نو جوانوں کے بنیادی مسائلوں کو حل کر نے میں ہما رے سیاست دان کو سوں دور ہیں ۔ ہما رے نو جوان P.HD-M.PHIL کی ڈگریاں حاصل کر کے پھر در در کی ٹھو کر کھا کر اصل مقصد سے ہٹ کر عسکریت کا روپ اختیار کر تے ہیں ۔ شاید بے روزگا ری ایک پڑھے لکھئے نو جوان کے لئے ایک زہر کی مانند ہیں ۔ ایک تعلیم یا فتہ نو جوان لاکھو ں کی تعداد میں روپیہ خرچ کر کے بیر ون ملکوں سے ڈگریاں حاصل کر کے اس امید میں جی رہتے ہیں کہ کہیں رو گار کی فراہمی ہو جا ئیاور کھبی کبھار سیاست دانوں کے چمچے بھی ثابت ہو تے ہیں ۔ لیکن نہ ملنے کی وجہ سے دوسری راہ چن کر اپنے خوابوں کو آخر ی نیند سُلا د یتے ہیں ۔
اس بات سے ہم بہ خو بی واقف ہیں کہ بندوق مسلہ کشمیر کو کوئی حل نہیں دے سکتی ، اور نہ ہی اس سے قوم کی حالت بہترکی جا سکتی ہے بلکہ بندوق سے تباہی کے مناظر سا منے آئے ہیں ۔ چو نکہ اگر تعلیم ایک ذریعہ ہے کسی بھی مسلے کے حل کا تو امن اس ما حول کے لئے ضروری ہے اور امن ہی کی بدولت کوئی حل نکل سکتا ہے۔ چو نکہ اگر تعلیم یا فتہ نو جوانوں کے ساتھ بے رحمی بد سلو کی۔ بد اخلاقی رویہ پیش آجا ئے تو ظاہر سی بات ہے کہ یہ نو جوان اپنا دوسرا روپ بھی دکھا نے پر مجبور ہو جا ئے گا اسلئے کہ امن اور تعلیم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔
بندوق جو کہ صرف انسان اور انسانیت کے قتل کا ہتھیار ہے۔ہمارے بڑے بڑے قلم کاروں اور دانش وروں نے ہر وقت بہ آواز بلند کہنے کی کوشش کی ہے کہ بندوق سے کسی بھی قوم نے کامیابی کے قدم نہیں چومے۔بلکہ صرف خزانے کم ہوئے۔یہاں کے سکالرس بے شک کشمیر کے انمول ہیرے ہیں۔جو فطرتاََ ذہنی اعتبار سے مالا مال ہے۔چونکہ کشمیر میں تعلیم کے عدم دستیابی ہے لیکن پھر بھی ہمارے نونہال ہر وقت اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ہر ایک میدان میں حاصل کر کے آتے ہیں۔جو کہ ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے،چونکہ کشمیر کی بدحالی سے پوری دنیا واقف ہیں۔لیکن ہمارے تارے پھر بھی چمکنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
بہر حال میرے خیال سے بندوق اور علم دو الگ الگ پہلو ہء، علم نور ہے اور بندوق اندھیرے کی مانند ہیں ، جو اپنا رنگ دکھا نے سے پہلے ہی غا ئب ہو جا تا ہے، علم ایک میٹھا سمندر ہے اور بندوق خون کی بہتی ند یاں ہیں ، علم میں طا قت ہے اور بندوق میں بٹوارا ہے، علم ایک جیتا جاگیا ثبوت ہے۔ جو با بٹنے سے نہیں کھٹتی ہیں اور بندوق ایک ایسا آلہ ہے جو پھلوں کو مسل دیتا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ ہمارے نو جوان کو کو نساراستہ چن کر اپنا جیون خو شحال بنانا چا ہئے۔ میرے خیال سے علم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے دنیا کی کو ئی بھی جنگ جیت سکتی ہے ہما رے بہت ہی بڑ ے اور عظیم دانشو ر مہاتھا گا ند ہی جی کی مثال دنیا کے سا منے عیاں ہیں۔ نہ کو ئی یہ ہتھا ر ، نہ کو ئی لڑ ائی نہ کو ئی جنگ بلکہ علم اور عقل کا استعمال کر کے ایک بڑ ی جنگ حاصل کر نے میں وہ کا میاب ہو چکے ہیں۔
دیکھا جا ئے تو یہ بات بھی غو ر طالب ہے کہ ہما رے حکمرانوں پر بھی کچھ ذمہ دار یاں عائد ہیں۔
وہ یہ کہ روز گار کی فراہمی ، امن کا قیام ، پر سلوک اور خوش روی ، پر سکون اور بھائی چا رے کی ضرورت ہے، اور اگر ان اصولوں کا اپنا یا جا ئے تو وہ دن دور نہیں ہو گا جب ہند و مسلم بھا ئی بھا ئی کا نعرہ ہما رے شہر میں پھر سے عام ہو جا ئے گا۔ رہی بات والدین کی تر بیت کی! میں سمجھتی ہو ں کہ دنیا کا کو ئی بھی مرد اپنے نسل کو نا بود نہیں کت نا چا ہتا۔ ظاہر سی بات ہے والدین بندوق کی سلاح نہیں دے گا، ہر گز نہیں بس یہ ذمہ داری صرف ہمارے حکمرانوں پر عا ئد ہے کہ کس طرح سے ان نو جوانوں کو اپنی طرف راغب کر کے اپنا رول ادا کر یں، تاکہ یہاں کے والدین ، بچے ، بیویاں غرض ہر طبقہ خو شی کے ماحول میں سا نس لے پا ئیں ۔ اور پھر سے یہاں خو شحال کے گیت سا منے آئیں ۔ ندی نالوں ، سٹرکوں ، کو چو ں ، گلیوں ، پہاڑوں اور کو ہساروں غرض ہر گوشہ خو شی سے جھوم اٹھے۔
Freedom of Edn for women in Kashmir Vs Deprivation of Basic Human rights in Pakistan
The issues of education and human rights for women in South Asia are deeply intertwined with socio-political, cultural, and religious...
Read more