گھڑیال نیوز ڈیسک
ملی ادارے وقف بورڈ میں نئی روح پھونکنے کی خاطر اگر چہ مرکزی حکومت نے نئی چیرپرسن درخشاں اندرابی کی تعیناتی عمل میں لائی ہے تاہم اس ادارے میں سابقہ حکومتوں کی جانب سے جو گھوٹالے اور سکنڈل کئے گئے اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات عمل میں لانے کی عوامی حلقوں نے مانگ کی ہے۔ جموں خاص کر وادی کشمیر کے لوگوں کوا س بات کی بخوبی علمیت ہے کہ ملی ادارہ وقف بورڈ کے پاس کروڑوں کی جائیداد باغات اور ہوٹلوں کی صورت میں موجود ہے جبکہ ہر ماہ درگاہوں اور آستانوں سے بطورعطیہ کروڑوں روپیہ کی آمدنی اس ادارے کو حاصل ہوتی ہے لیکن سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ادارے نے آج تک آمدنی کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کیوں نہیں کیا؟۔ ایک اندازے کے مطابق وقف بورڈ کے پاس لگ بھگ ایک سو کلو سونا جو مختلف درگاہوں پر لوگوں نے بطور عطیہ دیا ہے موجود ہے اور اس سونے کا کھبی بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ وقف بورڈ کے پاس کروڑوں کے باغات بھی ہے لیکن المیہ اس بات کا ہے کہ ان باغات کو بطور آمدنی استعمال نہیں کیا گیا ۔ باغات سے جو پھل نکلتا ہے اُس کو ضائع کرنے کی روایت پچھلے کئی صدیوں سے لگاتا ر چل رہی ہے۔وقف بورڈ کے پاس درجنوں ہوٹلز بھی ہے اور خاص کر بلوارڈ میں قائم ہوٹلوں سے اس ادارے کو کروڑوں کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے لیکن سابقہ حکومتوں نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ وقف بورڈ کی آمدنی کے بارے میں سابقہ حکومتوں نے یہاں کے لوگوں کو اندھیروں میں رکھا اور اس ادارے کا ناجائز استعمال کرکے اپنے جیب بھرے ہیں ۔ا س ملی ادارے کے پاس اتنی زیادہ پراپرٹی ہے کہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے تاہم لوگوں کو بھی اس بارے میں کھبی بھی جانکاری نہیں دی گئی ۔ ایک اندازہ کے مطابق ہر سال مختلف آستانوں اور درگاہوں سے وقف بورڈ کو 30سے 40کروڑ کی آمدنی حاصل ہوتی ہے اور بیس کروڑ روپیہ وہاں پر تعینات ملازمین پر خرچ ہوتے ہیں تو باقی رقم کہاں جاتی ہے اس بارے میں بھی لوگوں کو اندھیرے میں رکھا گیا ۔ وقف بورڈ کی جانب سے ہر سال ایک کتابچہ منظر عام پر لایا جاتا تھا جس میں اس ادارے کی پراپرٹی اور آمدنی کے بارے میں گوشوارہ شائع کیا جاتا لیکن پچھلے کئی برسوں سے اُس کو بھی بند کیا گیا لہذا اس بات کی اب وضاحت ضروری ہے کہ وقف بورڈ کو ہر ماہ کتنی آمدنی حاصل ہوتی ہے اور ملازمین پر کتنے پیسے ہر ماہ تنخواہ کی صورت میں خرچ ہوتے ہیں اس بارے میں لوگوں کو جانکاری فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ وقف بورڈ کے پاس کروڑوں کی زمین اور سیب کے باغات ہے لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ اراضی کی بھی تفصیل آج تک فراہم نہیں کی گئی ۔ حتیٰ کہ چند مقامات پر وقف بورڈ کی اراضی کو بعض ملازمین نے اپنا نام کر لیا ہے اور اس بارے میں اینٹی کرپشن بیورو میں ایک کیس بھی درج کیاجا چکا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک معاملہ اینٹی کرپشن بیورو کے سامنے آیا ایسے کتنے کیس ہونگے جن کو دبایا گیا اور آفیسران نے شکم سیری کا سامان پیدا کرکے اس ادارے کو مالی طور پر کمزور کر دیا ہے۔ وقف بورڈ ادارے کے پاس متعدد اسکول اور نرسنگ کالج بھی ہیں لیکن ان اسکولوں پر کتنا خرچ ہوتا ہے اوروہاں سے کتنی آمدنی حاصل ہوتی ہے اس بارے میں بھی چپی سادھی گئی اور اس طرح سے یہ ادارہ اب مالی طورپر کمزور ہو چکا ہے۔ غرض یہ کہ ملی ادارے وقف بورڈ کے پاس کروڑوں کی جائیداد اور نقدی کے ساتھ ساتھ ایک سو کلو سونا بھی موجود ہے لیکن عوام الناس کا مطالبہ یہ ہے کہ وقف بورڈ ہر ماہ گوشوارہ اجرا کریں تاکہ لوگ یہ دیکھ سکے کہ اس ادارے کے پاس کتنی آمدنی ہے اور ملازمین کی تنخواہوں پر کتنا خرچ ہورہا ہے۔ اس ادارے کو چند سیاستدانوں نے اپنی جاگیر بنارکھا ہوا تھا اور اپنے ہی ورکروں اور رشتہ داروں کو اس میں تعینات کیا جاتا تھا لیکن اب وقت بدل چکا ہے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد یہ ادارہ سینٹرل وقف بورڈ کے تحت آچکا ہے لہذا اب ملازمین کو پائی پائی کا حساب دینا پڑے گا۔ وقف بورڈ ادارے کی جانب سے مختلف آستانوں کی تجدید مرمت کی خاطر ٹھیکے بھی الاٹ کئے جاتے ہیں لیکن ان ٹھیکوں کے بارے میں بھی آج تک کچھ بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ اس ادارے نے چند سال قبل بھرتی عمل بھی شروع کیا تاہم اُس بھرتی عمل کو طول دے کر بعض آفیسران اس ادارے کی دیکھ ریکھ پر مامور بیروکریٹوں نے رشوت کا سامان پیدا کرکے سیاستدانوں ، اثر رسوخ رکھنے والے افراد کو ہی تعینات کیا ۔ عوامی حلقوں نے موجودہ چیرپرسن درخشاں اندرابی سے مطالبہ کیا ہے کہ ملی ادارے کی جائیداد کے بارے میں ایک وائٹ پیپر شائع کرنے کی ضرورت ہے جبکہ وقف بورڈ کی اراضی جس کو سابقہ حکومتوں نے اپنے اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کیا اُس حوالے سے بھی سب کچھ سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ ادارے کے پاس کتنی کنال اراضی اور کتنے ہوٹل ہیں۔ توقع کی جارہی ہیں کہ موجودہ چیر پرسن وقف بورڈ کی اراضی کو عوام کی فلاح و بہبود کے کام پر وقف کریں گے ۔ متعدد جگہوں پر وقف بورڈ کی اراضی کو سابقہ حکومتوں نے پارکوں میں تبدیل کیا ہے اوراس کی مثال شہام پورہ نوہٹہ میں قائم گنج بخش پارک سے دی جاسکتی ہے۔ 23کنال پر محیط اس اراضی پر پیڑ پودوں کی نرسری موجود تھی تاہم نیشنل کانفرنس نے اپنے ورکروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر ملی ادارے کی اس قیمتی اراضی کو پارک میں تبدیل کرکے اُس کو فلوری کچر کے سپرد کیا جس وجہ سے یہ اراضی جس پر سرکاری عمارت تعمیر ہوسکتی تھی جہاں سے ادارے کو آمدنی کے ذرائع موصول ہو سکتے تھے تفریح گاہ کے بطور پر استعمال کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔
وادی کشمیر میں وقف اثاثوں کی صحیح نگرانی اور ترقی ناگزیر
وقف املاک نہ کسی مذہبی لیڈر کی ملکیت ہوتی ہے اور ناہی کسی خاص انجمن کی ملکیت ہے بلکہ یہ...
Read more