روایتی شعبہ جات اوربے روزگاری
سرکاری محکموں پر ملازمین اوراخراجات کے بوجھ کوکم کرنے کیلئے روایتی شعبہ جات کی مضبوطی،استحکام وفعالیت اورصنعتوں وکارخانوں کاقیام ہی ایک واحدراستہ ہے ۔جب تک اس جانب توجہ دیکر ایک مربوط اوردُوراندیشانہ پالیسی مرتب کرکے اس پرعمل نہیں کیاجاتاہے تب تک بے روزگاری سماج ومعاشرے کیلئے ایک سنگین چیلنج بنی رہے گی جبکہ قیمتی انسانی وسائل کیساتھ ساتھ قدرتی وسائل کاضیاں بھی ہوتارہے گا۔سیب کے درخت لگانا،زمینداری کرنا،دستکاری کے کارخانے قائم کرنا،دستکاری مصنوعات کوبنانا،سیاحوں کی مہمان نوازی اوراُن کیلئے نظرہاؤس بوٹوں وہوٹلوں کوسجانا لاکھوں کشمیریوں کیلئے روایتی ذریعہ معاش رہاہے ۔میوہ ،دستکاری اورسیاحت ایسے تین شعبے ہیں ،جن کیساتھ لاکھوں لوگوں کاروزگار بالواسطہ اوربلاواسطہ ططورپرجڑا رہاہے ،لیکن ان تین صنعتوں کوفروغ اوروسعت دیناتودورکی بات ،اپنے یہاں کے عوام کے منتخب حکمرانوں نے ان تین اہم شعبوں یاروایتی صنعتوں کوبچانے کی بھی کوئی فکریاسنجیدہ کوشش نہیں کی ۔آج بھلے ہم کسی کوبھی کوسیں یاکسی کیخلاف بھی بولیں ،لیکن روایتی ذرائع معاش کی تباہی کیلئے ہمارے اپنے منتخب کردہ حکمران ذمہ داررہے ہیں ،جنہوں نے میوہ ،سیاحت اوردستکاری جیسی اہم ترین صنعتوں کوجدید خطوط پراستوار کرنے کی کوئی پالیسی مرتب نہیں کی ۔زراعت وباغبانی ،سیاحت یعنی ٹورازم اورہینڈی کرافٹس یعنی دستکاری سے جڑے محکموں کے افسروں اورماہرین کی مجموعی کارکردگی کااحاطہ کریں تواعلیٰ حکام اورخود کوماہرکہلانے والے افسروں نے اپنی زیادہ ترتوجہ اسبات پرمرکوز رکھی کہ مختلف اسکیموں کے تحت ملنے والے فنڈس کوکیسے ادھراُدھر کیاجائے ،کیسے کاغذی گھوڑے دکھاکر رقومات میں بندربانٹ کی جائے ۔حکمرانوں نے بھی ان تین چاراہم محکمہ جات کی کمان ایسے حکام کے ہاتھوں میں دے دی ،جو پیشہ ورہی نہیں تھے ،بلکہ جن کی اصل توجہ اسکیموں کوناکام کرنے سے سامنے آتی ہے ۔کیا کبھی محکمہ زراعت ،باغبانی ،ٹورازم اورہینڈی کرافٹس کے حکام نے متعلقہ محنت کشوں کی کبھی کوئی رہنمائی کی ،کیا کبھی مختص شدہ فنڈس کومقررہ وقت میں صرف کیاگیا،کیامختلف اسکیموں یاپروجیکٹوں کوکبھی مقررہ مدت کے اندرپایہ تکمیل تک پہنچایاگیا۔آج بھی وہی روش ہے کہ متعلقہ محکموں کے افسران اپنی ذاتی تشہیر پرزیادہ توجہ مرکوز کئے ہیں تاکہ خودسے اعلیٰ حکام اورحکومت وقت کی خوشنودی حاصل کرسکیں ۔ یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ کشمیری سیب ہو،قالین ہو،شال ہویاکہ نمدے یاکہ کشمیریوں کی مہمان نوازی،ان سبھی چیزوں اوراوصاف نے ہی دنیامیں کشمیر کانام روشن کیا جبکہ متذکرہ بالاتین شعبے فروٹ،ٹورازم اورہینڈی کرافٹس کی برآمدسرکاری خزانے کیلئے آمدن کااہم ترین ذریعہ بھی رہے ہیں ،لیکن یہ وقت وقت کے حکمرانوں اورمتعلقہ حکام کی نااہلیت کامنہ بولتاثبوت ہے کہ آج یہ تین اہم شعبوں سے وابستہ لوگ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ،اوراس جنگ میں اُن کاکوئی حامی ومددگار بھی نہیں ۔میوہ صنعت جموں وکشمیرکی اقتصادیات کیلئے ریڈکی ہڈی رہاہے ،کیونکہ اس صنعت کے کاروبار کاسالانہ حجم دس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ رہاہے ،لاکھوں لوگ میوہ صنعت سے جڑے ہوئے ہیں ،لیکن گزشتہ کئی برسوں سے فروٹ گروؤر اوراس صنعت سے جڑے دوسرے لوگ بشمول بیوپاری اورمزدور معاشی ومالی بدحالی کے شکار رہے ہیں ۔ماہرین کامانناہے کہ جن تین کمزوریوں کی وجہ سے فروٹ انڈسٹری زوال پذیر ہورہی ہیں ،اُن میں میوہ باغات کیلئے غیرمعیاری ادویات وچحرکاؤتیل،سیب کی غلط درجہ بندی(گریڈنگ)،بازاری سہولیات(مارکیٹنگ ) کافقدان اورسیب سے بھری پیٹیوں وڈبوں کوبروقت بیرونی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے ٹرانسپورٹ سہولیات کانہ ہونا بھی شامل ہے ۔کشمیری سیب کی حالت یہ بنائی گئی کہ اس کی قیمت یہاں کاباغ مالک یامیوہ بیوپاری نہیں لگاتایامقررکرتا ہے ،بلکہ بیرون ریاست قائم منڈیوں میں بیٹھے لوگ ہی مختلف اقسام کے کشمیری سیبوں کی ریٹ کاتعین کرتے ہیں۔یہاں کولڈ اسٹوریج کی جانب توجہ نہیں دی گئی ،میوہ منڈیاں قائم کی گئیں لیکن وہاں کچھ ایک ڈھانچے تعمیر کرنے کے سواء کچھ بھی نہیں کیاگیا۔دستکاری صنعت سے وابستہ ہزاروں اورلاکھوں لوگ متبادل کام کررہے ہیں ،سیاحتی صنعت سے وابستہ لوگ بشمول ہاؤس بوٹ مالکان وشکارہ والے اب آٹو رکھشا چلاتے ہیں ،حتیٰ کہ میوہ صنعت سے جڑے لوگ بھی متبادل کام کرنے پرمجبور ہیں ۔موجودہ حکومت سے زیادہ یافوری اُمید نہیں کی جانی چاہئے کیونکہ اس حکومت کے ذمہ داروں اورپالیسی سازوں کوکشمیرکی روایتی صنعتوں کے بارے میں زیادہ علمیت یامعلومات نہیں ۔اب یہ زمینداروں ،دستکاروں ،شکارہ والوں اورہاؤس بوٹ مالکوں پرمنحصر ہے کہ وہ تمام ترمشکلات اورہاتھ بندھے ہونے کے باوجود اپنے روایتی ذرائع معاش کوبچانے کیلئے کیاکچھ یاکتناکچھ کرپاتے ہیں ۔تاہم موجودہ حکومت اوراس کے پالیسی سازوں سے یہ اُمید کی جانی چاہئے کہ وہ تین اہم مقامی یاروایتی صنعتوں کوہوئے نقصانات پرقابو پانے کی کوشش کریں گے ،اُن سے یہ اُمید کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے زبانی جمع خرچ کے بجائے جوکریں عملی طورپرکریں گے ۔
G20 meeting will open new avenues for educated youth
جی ٹونٹی اجلاس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے نئی راہیں کھلیں گی...
Read more