Monday, May 12, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Opinion Article

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں 31سال بعد بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں اور خدشات.

Gadyal Desk by Gadyal Desk
16/02/2022
A A
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیرمیں 31سال بعد بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں اور خدشات.
FacebookTwitterWhatsappTelegram

حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام جموںکشمیر میں 31سال بعد بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حلقہ بندیوں پر شہریوں کے اعتراضات کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ شاید اس مرتبہ بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پائے گا۔
دوسری طرف سپریم کورٹ اپنے احکامات پر بہر صورت عملدرآمد کروانے کیلئے پر عزم ہے اور حکومت کو بھی فی الحال انتخابات کا انعقاد نہ کروانے کیلئے کوئی عذرمیسر نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 21دسمبر 2021ء کو حکم دیا کہ 45ایام کے اندر حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل کرتے ہوئے 6ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ کے حکم میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ حلقہ بندیاں لوکل گورنمنٹ ایکٹ1990ء کے تحت اور رولز میں ترمیم کیلئے جاری کئے گئے حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق کی جائیں گی۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ یہ حلقہ بندیاں 2017ء کی مردم شماری کے مطابق کی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندی افسران کا تقرر کرتے ہوئے مجوزہ حلقہ بندیوں کے حتمی نوٹیفکیشن جاری کر دیئے ہیں، جن کے خلاف مقامی عدالتوں میں اپیلوں کی سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ اپیلوں پر سماعت رواں ماہ کے آخری ہفتے تک بہر صورت مکمل کی جانی ہے۔
ادھر سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف بھی اپیل دائر کی گئی ہے۔ مذکورہ اپیل میں سپریم کورٹ سے 2017ء کی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیوں کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی گئی ہے ، اور موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مردم شماری2017ء ابھی نوٹیفائیڈ نہیں ہے ۔ مردم شماری کے مطابق آبادی اور ووٹرز میں فرق انتہائی معمولی رہ جاتا ہے۔
ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی پر امید ہیں کہ یہ تمام قانونی پیچیدگیاں جلد دور ہو جائیں گی اور سپریم کورٹ کی مقرر کردہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔
تاہم شہریوں کی ایک بڑی تعداد حلقہ بندیوں پر معترض ہے۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے کے علاوہ احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بلدیاتی اداروں کے قیام کیلئے ’لوکل گورنمنٹ ایکٹ1990ء ‘نافذ العمل ہے۔ ایکٹ کے تحت بلدیاتی اداروں کو ضلع کونسل، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی، ٹائون کمیٹی، یونین کونسل اور وارڈ کی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے۔
حالیہ حلقہ بندیوں کے بعداس خطہ کو10ضلع کونسلوں، 5میونسپل کارپوریشنوں، 13میونسپل کمیٹیوں، 18ٹائوں کمیٹیوں اور190سے زائد یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے لوکل گورنمنٹ رولز میں ترمیمی نوٹیفکیشن کے مطابق میونسپل کاپوریشن کو 3500سے 5000کی آبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے، میونسپل کمیٹی کو 3000سے 4ہزارآبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ٹائون کمیٹی کو 2ہزار سے3ہزار آبادی پر مشتمل وارڈوں، جبکہ یونین کونسل کو 1500سے 2ہزار آبادی پر مشتمل وارڈوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یونین کونسل کی آبادی بھی کم از کم10ہزار اور زیادہ سے زیادہ 15ہزار مقرر کی گئی ہے۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق منتخب کونسلرز کے10فیصد کے برابر یا ہر یونین کونسل، ٹائون کمیٹی، میونسپل کمیٹی اور کاپوریشن میں کم از کم 2خواتین اراکین کونسل کا انتخاب منتخب کونسلروں کے ووٹوں سے کیا جائیگا۔
میونسپل کاپوریشن میں وارڈوں سے منتخب ہونے والے کونسلر میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرینگے، میونسپل کمیٹی، ٹائون کمیٹی اور یونین کونسل میں منتخب کونسلر چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کرینگے۔ یونین کونسلوں سے ضلع کونسل کے اراکین کا انتخاب ہوگا، جو چیئرمین اور وائس چیئرمین ضلع کونسل کا انتخاب کرینگے۔
حلقہ بندیوں کے دوران یونین کونسلوں کی تقسیم، انضمام اور وارڈوں کے قیام کے حوالے سے شہریوں کے مختلف تحفظات ہیں۔شہریوں کے تحفظات کی ایک
بڑی وجہ آبادی اور ووٹروں کی تعداد میں انتہائی معمولی فرق کا ہونا بھی ہے۔
ڈپٹی کمشنر پونچھ ممتاز کاظمی کہتے ہیں کہ ’ووٹر فہرستیں نادرا کے ریکارڈ کے مطابق تیار کی گئی ہیں اور نادرا نے شناختی کارڈ پر درج مستقل پتہ کی بنیاد پر ووٹوں کا اندراج کیا ہے۔ ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو اپنے مستقل پتہ پر رہائش پذیر نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں یا اندرون ریاست مختلف شہریوںمیں رہائش پذیر ہے۔ اس طرح مردم شماری کے دوران جو آبادی شمار کی گئی ہے اس نسبت ووٹروں کا تناسب زیادہ ہے۔ ‘
انکا کہنا تھا کہ ’گو ابھی بھی آبادی ووٹروں سے زیادہ ہے، لیکن یہ تناسب اتنا نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے۔ ووٹر چونکہ 18سال سے زائد عمر کا ہی ہوتا ہے، جبکہ آبادی میں 18سال سے کم عمر شہری بھی شمار ہوتے ہیں، اس طرح ووٹروں اور آبادی کی تعداد میں ایک واضح فرق ہونا چاہیے۔ تاہم یہ فرق یہاں بہت معمولی ہے۔ ‘
شہریوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پہلے جو یونین کونسل موجود ہوتی تھی اب اسے ختم کر دیا گیا ہے، یا پھر دو یونین کونسلوں کو ضم کر کے ایک کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح نئی یونین کونسلوں کے قیام پر تقسیم کے طریقہ کار پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ اسی طرح شہریوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ آج سے 31سال پہلے جو ایک وارڈ تھی ، وہ آج بھی ایک وارڈ ہی ہے، یا پھر اس وقت کی 2وارڈوں کو ضم کر کے ایک وارڈ بنا دی گئی ہے۔
ممتازکاظمی کہتے ہیں کہ ’پہلے یونین کونسل کی آبادی کم مقرر کی گئی تھی، اب زیادہ ہو گئی ہے، وارڈ کے قیام کیلئے بھی آبادی ماضی میں 700سے 1000کے درمیان تھی۔ اب شہری علاقوں میں ایک وارڈ 5ہزار آبادی تک چلی گئی ہے۔ہم سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف لوگوں کی خواہشات پر اقدامات نہیں کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر عدالت سے شہریوں کو کوئی ریلیف ملتا ہے تو ہم اسی نسبت سے حلقہ بندیوںمیں تبدیلی بھی کر لیں گے۔‘
انکا کہنا تھا کہ ’یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 2017ء کی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کیلئے حکومتی نوٹیفکیشن کے تحت ہی حلقہ بندیاں کی جانی تھیں اور ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ‘
ایک سوال کے جواب میں ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ’فروری کے آخری ہفتے تک حلقہ بندیوں کے خلاف دائر ہونے والی اپیلوں کی سماعت مکمل ہو جائے گی اور امید ہے کہ سپریم کورٹ میں دائر ہونیوالی اپیل پر بھی فیصلہ جلد ہی ہو جائیگا۔ اس کے بعدبلدیاتی انتخابات کے راستے میں اور کوئی رکاوٹ باقی رہ نہیں جاتی ہے۔قومی امکان ہے کے جون سے اگست2022ء کے درمیان انتخابا ت کا انعقاد ہو جائیگا۔‘
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آخری مرتبہ بلدیاتی انتخابات1991ء میں منعقد ہوئے تھے۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندگان کی مدت انتخاب 4سال بعد ختم ہو گئی تھی ، تاہم اس کے بعد تاحال انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو پایا۔ اس طرح دیہی اور شہری کونسلوںکی ترقیاتی سکیمیں اور منصوبہ جات کی ذمہ داری ممبران قانون ساز اسمبلی سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ حکومت، انتظامیہ اور مختلف محکمہ جات کو معلومات کے حصول، شہریوں کی تصدیق سمیت دیگر معاملات میں 1991ء میں آخری مرتبہ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندگان کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے، جن کی بڑی تعداد اب زندہ ہی نہیں ہے۔
بلدیاتی اداروں کے نمائندگان دیہی اور شہری علاقوں کی تعمیر و ترقی، صفائی، سیوریج ، سینیٹیشن سمیت ٹیکسوں کے حصول اور ان کے استعمال کے فیصلہ جات کرنے کے اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔ تاہم بلدیاتی اداروں کو 3لاکھ روپے سے زائد کی ترقیاتی سکیم کی منظوری کیلئے ’لوکل گورنمنٹ ڈویلپمنٹ کونسل ‘ سے منظوری درکار ہوتی ہے۔ مذکورہ کونسل کے چیئرمین وزیراعظم ہوتے ہیں جبکہ وزیراعظم کے علاوہ کونسل کے10سے زائد اراکین ہوتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ممبران قانون ساز اسمبلی کو سمجھا جاتا ہے، کیونکہ بلدیاتی نمائندگان کی عدم موجودگی میں حلقہ کی تمام ترقیاتی سکیمیں بذریعہ ممبر قانون ساز اسمبلی تقسیم ہوتی ہیں ۔ مذکورہ سکیموں کو وہ سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے آئندہ انتخابات میں کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اس طرح ترقیاتی سکیموں کی تقسیم کے حوالے سے کچھ دیہات، یونین کونسلیں یا پھر شہری علاقے امتیازی سلوک نشانہ بن جاتے ہیں اور فنڈز کی برابری کی بنیاد پر تقسیم ممکن نہیں ہو پاتی۔ بلدیاتی اداروں کو طلبہ یونین کی طرح ایک سیاسی نرسری بھی سمجھا جاتا ہے ۔
گو بلدیاتی اداروں کی فعالی سے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے، تاہم نوجوان سیاسی کارکنان کو عوامی مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کیلئے جدوجہد کے راستے متعین کرنے کا موقع ضرور ملے گا،اور سیاست میں شہریوں کی مداخلت نئے امکانات ضرور روشن کریگی۔

Related posts

‘Operation Sindoor’: Indian Armed Forces Hit 9 Terror Camps Across LOC

Operation Sindoor, India’s Masterful Strike Against Terror

09/05/2025
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

NAYA KASHMIR- EK KASHMIRI KE AANKHO SE

09/05/2025
Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

JKBOSE Class 10 result: How, where to check Kashmir division result

Next Post

Free Fire Publisher Loses $16 Bn in Value After India Bans 54 More Chinese Apps

Related Posts

‘Operation Sindoor’: Indian Armed Forces Hit 9 Terror Camps Across LOC
Article

Operation Sindoor, India’s Masterful Strike Against Terror

by Syed Shakeela
09/05/2025
0

The skies were still dark when India's most elite Air Force pilots took off on a mission that would soon...

Read more
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

NAYA KASHMIR- EK KASHMIRI KE AANKHO SE

09/05/2025
WORLD ATHLETICS DAY

WORLD ATHLETICS DAY

03/05/2025
UNVEILING THE SPLENDOR OF GUREZ VALLEY AN ODYSSEY FROM DAWAR TO THE ENIGMATIC PATALWAN LAKE

THE EVOLVING DIGITAL LANDSCAPE OF KASHMIR: A DECADE OF TRANSFORMATION

01/05/2025
KASHMIR THROUGH THE LENS: PHOTOGRAPHY AND STORYTELLING

CULTURAL HERITAGE OF KASHMIR: A RICH TAPESTRY OF TRADITION AND LEGACY

01/05/2025
Next Post
Free Fire Publisher Loses $16 Bn in Value After India Bans 54 More Chinese Apps

Free Fire Publisher Loses $16 Bn in Value After India Bans 54 More Chinese Apps

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.