سری نگر،8 نومبر میوزک اور فنون لطیفہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے ایک کشمیری نوجوان نے ایک نئی تکنیک کو استعمال میں لا کر کشمیری قالینوں کو بین الاقوامی بازاروں میں نہ صرف جاذب نظر بلکہ گاہکوں کی خریداری کی پہلی پسند بھی بنا دیا ہے۔سری نگر سے تعلق رکھنے والے نواز شاہ صوفی نے ہاتھوں سے بننے والے قالینوں میں ’زری‘ کا پہلی بار استعمال کیا جس کی مدد سے دھاتی دھاگوں اور کثیر رنگوں کو استعمال کر کے ہاتھوں سے قالین بنائے جاتے ہیں۔نواز شاہ کی اس منفرد تکنیک کے استعمال سے کشمیری قالینوں کی تجارت کی جان میں نئی جان آگئی ہے جس کی حالت انتہائی نا گفتہ بہہ تھی۔یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قالین بافی ایک زمانے میں کشمیرکی بہت بڑی صنعت تھی اور خاص طور پر دیہی علاقے کے لوگوں کے لئے روز گار کا ایک اہم ذریعہ تھا۔نواز شاہ ’زری‘ کا استعمال کر کے دھاگوں کے پرکشش رنگوں سے دیواروں پر آویزاں رکھنے کے لئے قالین بناتے ہیں جن پر قراان پاک کی خطاطی آیات، قدرتی و ثقافتی ورثے کی نقش و نگاری کی گئی ہوتی ہے اور ان قالینوں کی دوبئی میں منعقدہ عالمی نمائش میں نماش کی گئی۔نواز شاہ نے صرف کشمیری قالینوں کے بُنائی کے طرز کو تبدیل نہیں کیا بلک مشہور ’کانی‘ شال کو بھی دوبارہ ڈیزائن کیا جس کو قالین کے طرز پر ہی تیار کیا جاتا ہے۔نواز شاہ صوفی نے اپنے اس منفرد ہنر کے متعلق یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’میرے والد غلام محمد صوفی اور میرے بھائی محمد رفیق صوفی قالین بافی کا کام کرتے ہیں اور جموں و کشمیر حکومت نے انہیں بالترتیب سال 2012 اور2013 میں اعزازات سے بھی نوازا تھا اور جس ڈیزائن پر انہیں اعزازات سے نوازا گیا وہ میں نے ہی ڈیزائن کیا تھا‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر یونیورسٹی سے میوزک اور فنون لطیفہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے والد کو دیواروں پر آویزاں رکھنے کے لئے مختلف قسم کے قالین بنانے پر راضی کیا جن میں قرآن پاک کی خطاطی آیات اور کشمیر کی ثقافتی ورثے و قدرتی نظاروں کی نقش نگاری کی گئی ہو۔ان کا کہنا تھا: ’والد نے میری بات مانی اور مجھے کچھ نمونے لانے کو کہا‘۔نواز شاہ صوفی نے کہا کہ مجھے اس طرز کے قالین بننے کے لئے ایک خاص قسم کے ’قالین بننے کے کوڈ‘ زبان تیار کرنے میں کچھ وقت لگ گیا تاکہ قالین باف اس زبان کو آسانی سے سمجھ سکیں اور قالین تیار کر سکیں۔انہوں نے کہا: ’جب اس طرز کے قالین تیار ہوئے اور ہم نے ان کو مقامی بیوپاریوں کو بطور نمونہ بیجا تو ان کو بہت پسند کیا گیا اور ہمیں ان کے آرڈرس آنے لگے‘۔ان کا کہنا تھا: ’گریجویشن مکمل کرنے کے بعد میں بھی دوسرے فنکاروں کی طرح کینواس پر مصوری کرتا رہتا تھا لیکن میرے ذہن میں ہمیشہ یہ بات قبضہ کئے ہوئے تھی کہ میں قالین بنانے کے ڈیزائن کو کیسے بدل سکوں گا تاکہ ان کو بین الاقوامی بازاروں میں ایک اچھی قیمت پر بیچا جا سکے‘۔نواز شاہ نے کہا کہ اس طرز کے قالینوں کی مانگ دوبئی کے بازاروں میں کافی بڑھ گئی ہے۔انہوں نے کہا: ’ہمارے قالینوں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر پسند کیا جا رہا ہے اور ان کی مانگ میں روز افزوں اضافہ درج ہو رہا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ یہ قالین بالکل الگ طرز کے ہیں اور کافی دلکش اور دلربا ہیں۔نواز شاہ نے کہا کہ قطرکے ’الثانی گروپ‘ نے ہمارے قالینوں کو ممبئی میں ایک شو روم پر دیکھا تھا تو وہ ان کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں اس گروپ نے ہمیں کافی بڑا آرڈر دیا جس کو پورا کر کے ہم نے اچھا پیسہ کمایا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قالینوں کو خلیجی ممالک میں کافی پسند کیا جاتا ہے ان ممالک میں ان کی مانگ کافی بڑھ رہی ہے۔نواز شاہ صوفی نے کہا کہ میں نے کشمیر کی قدیم روایتی و تہذیبی پینٹنگس کو بھی تیار کیا ہے جن کی یہاں کافی مانگ ہے۔انہوں نے کہا کہ قالین خریدنے کے متعلق بھی اب لوگوں کا رجحان بدل گیا ہے اور لوگ اب نئی قسم کی نقش نگاری کے قالین خریدنا پسند کرتے ہیں۔موصوف فنکار نے کہا کہ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات پر اپنے قالینوں کی نمائش لگانا میرا ایک خواب ہے لیکن حکومت اس سلسلے میری کوئی معاونت نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قالینوں کے ذریعے کشمیر کی ثقافت کو زندہ رکھنا میرا مقصد بھی ہے اور شوق و جذبہ بھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے زائد از 50 قالین بافی کے کارخانے چل رہے ہیں جن میں چالیس ماہر فن کام کر رہے ہیں۔نوز شاہ نے کہا کہ کشمیر کے پرانے قسم کے قالینوں کی بین الاقوامی بازاروں میں اب کوئی مانگ نہیں ہے لیکن اس نئی تکنیک اور ڈیزائن پر تیار کئے جا رہے قالینوں کی مانگ خلیجی ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی بڑھنے لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نئی تکنیک سے بنے قالینوں کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا میرا مشن ہے تاکہ ہمارا یہ فن ہر جگہ پہنچ سکے۔یو این آئی