Thursday, May 15, 2025
  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
Gadyal Kashmir
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper
No Result
View All Result
Gadyal Kashmir
Home Home

نواز شاہ صوفی نے نئی تکینک کے استعمال سے کشمیری قالین بافی کی صنعت میں نئی جان ڈال دی

Gadyal Desk by Gadyal Desk
08/11/2021
A A
FacebookTwitterWhatsappTelegram

Related posts

India’s Solodarity with people POJK

وادی کشمیر میں وقف اثاثوں کی صحیح نگرانی اور ترقی ناگزیر

19/04/2025

پاکستانی پروپیگنڈا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ کشمیر کے دوران: سوشل میڈیا کا تجزیہ

17/01/2025

سری نگر،8  نومبر میوزک اور فنون لطیفہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے ایک کشمیری نوجوان نے ایک نئی تکنیک کو استعمال میں لا کر کشمیری قالینوں کو بین الاقوامی بازاروں میں نہ صرف جاذب نظر بلکہ گاہکوں کی خریداری کی پہلی پسند بھی بنا دیا ہے۔سری نگر  سے تعلق رکھنے والے نواز شاہ صوفی نے ہاتھوں سے بننے والے قالینوں میں  ’زری‘ کا پہلی بار استعمال کیا جس کی مدد سے دھاتی دھاگوں اور کثیر رنگوں کو استعمال کر کے ہاتھوں سے قالین بنائے جاتے ہیں۔نواز شاہ کی اس منفرد تکنیک کے استعمال سے کشمیری قالینوں کی تجارت کی جان میں نئی جان آگئی ہے جس کی حالت انتہائی نا گفتہ بہہ تھی۔یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ قالین بافی ایک زمانے میں کشمیرکی بہت بڑی صنعت تھی اور خاص طور پر دیہی علاقے کے لوگوں کے لئے روز گار کا ایک اہم ذریعہ تھا۔نواز شاہ ’زری‘ کا استعمال کر کے دھاگوں کے پرکشش رنگوں سے دیواروں پر آویزاں رکھنے کے لئے قالین بناتے ہیں جن پر قراان پاک کی خطاطی آیات، قدرتی و ثقافتی ورثے کی نقش و نگاری کی گئی ہوتی ہے اور ان قالینوں کی دوبئی میں منعقدہ عالمی نمائش میں نماش کی گئی۔نواز شاہ نے صرف کشمیری قالینوں کے بُنائی کے طرز کو تبدیل نہیں کیا بلک مشہور ’کانی‘ شال کو بھی دوبارہ ڈیزائن کیا جس کو قالین کے طرز پر ہی تیار کیا جاتا ہے۔نواز شاہ صوفی نے اپنے اس منفرد ہنر کے متعلق یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’میرے والد غلام محمد صوفی اور میرے بھائی محمد رفیق صوفی قالین بافی کا کام کرتے ہیں اور جموں و کشمیر حکومت نے انہیں بالترتیب سال 2012 اور2013 میں اعزازات سے بھی نوازا تھا اور جس ڈیزائن پر انہیں اعزازات سے نوازا گیا وہ میں نے ہی ڈیزائن کیا تھا‘۔انہوں نے کہا کہ کشمیر یونیورسٹی سے میوزک اور فنون لطیفہ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے والد کو دیواروں پر آویزاں رکھنے کے لئے مختلف قسم کے قالین بنانے پر راضی کیا جن میں قرآن پاک کی خطاطی آیات اور کشمیر کی ثقافتی ورثے و قدرتی نظاروں کی نقش نگاری کی گئی ہو۔ان کا کہنا تھا: ’والد نے میری بات مانی اور مجھے کچھ نمونے لانے کو کہا‘۔نواز شاہ صوفی نے کہا کہ مجھے اس طرز کے قالین بننے کے لئے ایک خاص قسم کے ’قالین بننے کے کوڈ‘ زبان تیار کرنے میں کچھ وقت لگ گیا تاکہ قالین باف اس زبان کو آسانی سے سمجھ سکیں اور قالین تیار کر سکیں۔انہوں نے کہا: ’جب اس طرز کے قالین تیار ہوئے اور ہم نے ان کو مقامی بیوپاریوں کو بطور نمونہ بیجا تو ان کو بہت پسند کیا گیا اور ہمیں ان کے آرڈرس آنے لگے‘۔ان کا کہنا تھا: ’گریجویشن مکمل کرنے کے بعد میں بھی دوسرے فنکاروں کی طرح کینواس پر مصوری کرتا رہتا تھا لیکن میرے ذہن میں ہمیشہ یہ بات قبضہ کئے ہوئے تھی کہ میں قالین بنانے کے ڈیزائن کو کیسے بدل سکوں گا تاکہ ان کو بین الاقوامی بازاروں میں ایک اچھی قیمت پر بیچا جا سکے‘۔نواز شاہ نے کہا کہ اس طرز کے قالینوں کی مانگ دوبئی کے بازاروں میں کافی بڑھ گئی ہے۔انہوں نے کہا: ’ہمارے قالینوں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر پسند کیا جا رہا ہے اور ان کی مانگ میں روز افزوں اضافہ درج ہو رہا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ یہ قالین بالکل الگ طرز کے ہیں اور کافی دلکش اور دلربا ہیں۔نواز شاہ نے کہا کہ قطرکے ’الثانی گروپ‘ نے ہمارے قالینوں کو ممبئی میں ایک شو روم پر دیکھا تھا تو وہ ان کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں اس گروپ نے ہمیں کافی بڑا آرڈر دیا جس کو پورا کر کے ہم نے اچھا پیسہ کمایا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قالینوں کو خلیجی ممالک میں کافی پسند کیا جاتا ہے ان ممالک میں ان کی مانگ کافی بڑھ رہی ہے۔نواز شاہ صوفی نے کہا کہ میں نے کشمیر کی قدیم روایتی و تہذیبی پینٹنگس کو بھی تیار کیا ہے جن کی یہاں کافی مانگ ہے۔انہوں نے کہا کہ قالین خریدنے کے متعلق بھی اب لوگوں کا رجحان بدل گیا ہے اور لوگ اب نئی قسم کی نقش نگاری کے قالین خریدنا پسند کرتے ہیں۔موصوف فنکار نے کہا کہ کشمیر کے مختلف سیاحتی مقامات پر اپنے قالینوں کی نمائش لگانا میرا ایک خواب ہے لیکن حکومت اس سلسلے میری کوئی معاونت نہیں کر رہی ہے۔ انہوں  نے کہا کہ قالینوں کے ذریعے کشمیر کی ثقافت کو زندہ رکھنا میرا مقصد بھی ہے اور شوق و جذبہ بھی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے زائد از 50 قالین بافی کے کارخانے چل رہے ہیں جن میں چالیس ماہر فن کام کر رہے ہیں۔نوز شاہ نے کہا کہ کشمیر کے پرانے قسم کے قالینوں کی بین الاقوامی بازاروں میں اب کوئی مانگ نہیں ہے لیکن اس نئی تکنیک اور ڈیزائن پر تیار کئے جا رہے قالینوں کی مانگ خلیجی ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی بڑھنے لگی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس نئی تکنیک سے بنے قالینوں کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا میرا مشن ہے تاکہ ہمارا یہ فن ہر جگہ پہنچ سکے۔یو این آئی

Gadyal Desk
Gadyal Desk
Previous Post

Research shall improve quality of life in society: CUK VC

Next Post

YSS Cricket Team Wins Match Against KU

Related Posts

India’s Solodarity with people POJK
Home

وادی کشمیر میں وقف اثاثوں کی صحیح نگرانی اور ترقی ناگزیر

by Gadyal Desk
19/04/2025
0

وقف املاک نہ کسی مذہبی لیڈر کی ملکیت ہوتی ہے اور ناہی کسی خاص انجمن کی ملکیت ہے بلکہ یہ...

Read more

پاکستانی پروپیگنڈا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورۂ کشمیر کے دوران: سوشل میڈیا کا تجزیہ

17/01/2025
THE CALL OF THE MOUNTAINS NORTH KASHMIR’S NEW FRONTIERS FOR ADVENTURE SEEKERS

گریز وادی کشمیر کی تہذیب اور کلچر کی پہنچان

09/01/2025
قاضی سلمان کو ڈائریکٹر، پی آئی بی سرینگر کے بطور ترقی سے نوازا گیا

قاضی سلمان کو ڈائریکٹر، پی آئی بی سرینگر کے بطور ترقی سے نوازا گیا

09/01/2025
بانڈی پورہ میں عوام کی بہادری: زخمی فوجیوں کی مدد سے کشمیریت کی مثال قائم

بانڈی پورہ میں عوام کی بہادری: زخمی فوجیوں کی مدد سے کشمیریت کی مثال قائم

05/01/2025
Next Post
YSS Cricket Team Wins Match Against KU

YSS Cricket Team Wins Match Against KU

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

  • Contact
  • About us
  • Advertise
  • Careers
  • Privacy Policy
e-mail: [email protected]

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.

No Result
View All Result
  • Home
  • Kashmir
  • Jammu
  • World
  • National
  • Sports
  • Article
  • ePaper

© 2022 Gadyal - Designed and Developed by GITS.