سری نگر، 28 جون سکھ گردوارہ مینجمنٹ کمیٹی دلی کے صدر اور اکالی دل کے قومی ترجمان منجندر سنگھ سرسا نے الزام لگایا ہے کہ وادی کشمیر میں سکھ کمیونٹی سے وابستہ بچیوں کا جبری طور مذہب تبدیل کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وادی میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران چار سکھ بچیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند دن قبل ہی ایک اٹھارہ سال کی سکھ بچی کی ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ شادی کرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثریتی فرقے سے وابستہ لیڈران ہمارا ساتھ نہیں دے رہے اور ان لوگوں نے اس مسئلے پر چپ سادھ لی ہے۔
موصوف صدر نے ان باتوں کا اظہار پیر کے روز یہاں گردوارہ شہید بنگا صاحب باغات برزلہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا ہے۔
انہوں نے کہا: ‘پچھلے ایک ماہ کے دوران چار بچیوں کو جبری طور مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور چند روز قبل ایک 18 سالہ بچی کی ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ شادی کرائی گئی اور یہ کہا گیا کہ بچی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے’۔
منجندر سنگھ کا الزام تھا کہ ضلع عدالت نے بھی نا انصافی کر کے بچی کے والدین کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے کہا: ‘افسوس کی بات یہ ہے کہ ضلع عدالت نے بھی انصاف نہیں کیا بچی کے والدین کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ لڑکے کے رشتہ عدالت میں گھس گئے’۔
ان کا کہنا تھا: ‘ہم اس سلسلے میں چیف جسٹس صاحب سے بھی ملیں گے، عدالت کو دیکھنا چاہئے تھا کہ کہیں دباؤ میں کام نہیں ہو رہا ہے اور پولیس سے بھی اس ضمن میں رپورٹ طلب کرنی چاہئے تھی’۔
موصوف صدر نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی ایک بیٹی کا نہیں بلکہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘یہ مسئلہ ایک بیٹی کا نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے دنیا بھر کے ہماری کمیونٹی کے لیڈروں نے اس مسئلے کا سنگین نوٹس لیا ہے اور جموں و کمشیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا صاحب کے نام ایک مکتوب بھی روانہ کیا گیا ہے’۔
مسٹر سرسا نے کہا کہ اکثریتی فرقے کو اس وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا۔
انہوں نے کہا: ‘کاش اس وقت اکثریتی کمیونٹی ہمارے ساتھ کھڑا ہوتی، آج ہمارے حق میں کوئی بول نہیں رہا ہے کیا آج ہم یہ مان لیں گے کہ ایک کمیونٹی کی بچی دوسری کمیونٹی کی بچی نہیں ہے اچھا ہوتا اگر آج اکثریتی فرقے کے لوگ بھی ہمارے ساتھ اس پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوتے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی میں خاص کر سال 2014 میں جب سیلاب آیا یہاں کافی کام کیا پچاس ہزار لوگوں کے لئے ہم کھانے کا انتظام کرتے تھے۔
موصوف صدر نے کہا کہ میں سیاسی جاعتوں عبداللہ خاندان، مفتی خاندان، غلام نبی آزاد سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ آج چپ کیوں ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘سید علی گیلانی نے اخبار میں بڑا بیان دیا تھا کہ سکھوں نے یہاں لنگر لگا کر لوگوں کو کھلایا پلایا آج وہ چپ کیوں ہیں؟’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں ہمیشہ سے چلے آ رہے آپسی بھائی چارے کو بنائے رکھنا چاہتے ہیں لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے۔
موصوف نے کہا کہ ہم اس سلسلے میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے بھی ملے اور ان کو پوری جانکاری فراہم کی اور ہم نے مرکزی وزیر داخلہ سے بھی فون پر بات کی جنہوں نے ہمیں اس میں مکمل کارروائی کرنے کا یقین دلایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھائی چارے کو کسی بھی صورت میں نقصان نہیں پہنچائیں گے تاہم کچھ لوگ اس میں اپنا ایجنڈا نکالنا چاپتے ہیں۔
انہوں نے مذہبی لیڈروں سے ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔
یو این آئی