قمرالدین وانی ایک سبکدوش معلم ہیں، عید کی چاندرات دس بجے تک وہ بالکل تندرست اور صحت مند دکھائی دے رہے تھے اور عید کی تیاریوں میں خوشی خوشی مصروف تھے۔رات بارہ بجے وہ شدید بخار میں مبتلاء ہو گئے۔ان کا جسم بھٹی کی طرح تپنے لگا، نیز کوڈ۔۹۱ کی ساری علامتیں ان میں ظاہر ہو گئیں۔
خاندان کے افراد کے چہروں سے خوف صاف عیاں ہو رہا تھا، آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اورکوئی ان کے قریب آنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔رات کروٹوں میں گزاری گئی۔صبح گھر میں ہی ریپڈ کوڈ ٹسٹ کرایا گیا جو مثبت آیا۔عید کا دن کیا تھا، قیامت تھی۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کیاجائے؟ سری نگر کے گلی کوچوں میں سخت کرفیو لگا دیا گیا تھا۔ایک گلی سے دوسری گلی کا سفر ناممکن بنا دیا گیا تھا۔بالآخر وانی صاحب کی اہلیہ نے ہمت کر کے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا:
”اس وقت اس کے سوا اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے کہ آپ مہر بانی کر کے باہر کے کمرے میں چلے جائیں، ہم لوگوں سے علٰیحدگی اختیار کر لیں،وہیں آپ کی خدمت کی جائے گی“
وانی صاحب کا بستر وسیع و عریض کشمیری طرز مکان کے لان میں موجود ایک چھوٹے مگر تاریک کمرے میں لگا دیا گیا۔جہاں کبھی بھیڑوں کی خدمت کی جاتی تھی۔یہ کمرہ اصل مکان سے ہٹ کر تھا۔اس کمرے میں اب وانی صاحب تنہا پڑے تھے، ساتھ میں ایک بھیڑ بھی بندھی ہوئی تھی۔عید کا دن تھا مگر وانی صاحب کے سامنے یکلخت وہ مناظر نگاہوں کے سامنے گزر نے لگے، جو انھوں نے نیوز اور سوشل میڈیا پر دیکھا تھے کہ کس طرح دلی اور یو پی میں حالیہ ماہ، موت کا رقص جاری تھا۔ہر طرف آہ و بکا تھی۔قبرستان اور شمشان گھاٹ میں جگہیں کم پڑ گئی تھیں۔قسمت کے بھی کیا کیا کھیل ہوتے ہیں، عید کا دن جب کہ ہر کوئی صحت مند رہنا چاہتا ہے، خوشی خوشی لوگوں سے بغلگیر ہو نا چاہتا ہے، لوگوں نے من چاہاً و مکرہاً وانی صاحب کا سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا۔اب وانی صاحب سوئیوں سے کھیلنے کی بجائے زندگی اور موت سے کھیل رہے تھے۔
وانی صاحب کے تین بیٹے تھے جو شادی شدہ تھے۔بیٹوں اور بہوؤں نے ان سے دور رہنا ہی پسند کیا اور پوتے پوتیوں کو بھی ان سے دور رہنے کی تاکید کی۔نیز سبھی لوگوں نے ایک دوسرے کو سختی سے ماسک پہننے نیز سینیٹائیزر کا استعمال کرنے کی ترغیب دی۔سرکار کی جانب سے اعلان کیے گئے کوڈ سینٹر کے فون نمبر پر اطلاع دی گئی۔
سوشل میڈیا کی مہربانی کہ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح بلکہ کرونا وائرس کی طرح محلہ کے طول و عرض میں پھیل گئی، لیکن کوئی بھی ملنے نہیں آیا۔نثار احمد بٹ، جووانی صاحب کے پڑوسی تھے، روایتی کشمیری لباس میں داخل ہوئے۔ڈبل ماسک لگانے کے با وجود موصوف نے چہرے کو ایک کپڑے سے ڈھنک رکھا تھا، آئے اور گھر والوں سے یوں گویا ہوئے:
”ارے کوئی انھیں دور سے کھانا تو دے دو، ورنہ اسپتال والے تو انھیں بھوکے پیٹ ہی اٹھا کر لے جائیں گے، اور ہاسپٹل میں پابند سلاسل نیز غیر معینہ مدت کے لیے محبوس کر دیں گے“
اب سوال یہ تھا کہ انھیں کھانا دینے کون جائے گا۔بہوؤں نے کھانے کی تھالی ساس کے ہاتھوں میں تھما دی۔وانی صاحب کی بیوی کے ہاتھ تھالی پکڑتے ہی تھرتھرانے لگے اور پیروں کو جیسے کسی نے ستون سے باندھ دیا ہو۔یہ دیکھ کر نثار احمد بٹ صاحب نے کشمیری میں کہا کہ ”ای چھ خاندار! کیون چھ پرواہ!(ارے یہ تمہارا شوہر ہے اور تم بھی۔۔پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں)۔منہ پر ماسک لگاؤ۔بعد میں ہاتھ سینیٹائیز کر لینا۔منہ کو کپڑے سے ڈھنک لو اور دور سے تھالی کھسکا دینا، وہ خود اٹھا لیں گے“
مگر وانی صاحب کی بیوی کی ہمت نہ پڑی۔وہ چند قدم آگے بڑھی تو تھالی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور کھانا فرش پر بکھر گیا۔
وانی صاحب تمام منظر اور گفتگو خاموشی سے سن اور دیکھ رہے تھے۔ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔سانس تھی کہ پھول رہی تھی۔کانپتے ہونٹوں سے انھوں نے کہا:
”کوئی میرے قریب نہ آئے، مجھے بھوک نہیں“
ٹھیک اسی وقت دروازے پر ایک ایمبولنس اور ایک پولس کی گاڑی آکر کھڑی ہو گئی اور وانی صاحب کو اس میں بیٹھنے کے لیے کہا گیا۔وانی صاحب ہراساں ہراساں، پریشاں پریشاں، آہستہ آہستہ بوجھل قدموں سے ایمبولینس کی جانب بڑھے۔آس پڑوس کے لوگ اپنی کھڑکیوں سے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔وانی صاحب کو یکلخت ایسا محسوس ہوا گویا ان سے کوئی بڑا جرم ہو گیا ہے، جس کی پاداش میں پولس تک انھیں لینے آئی ہے۔دیکھنے والوں کی نگاہیں بھی کچھ اسی سمت میں معنیٰ خیز تھیں۔لوگوں کی نگاہ قاہرانہ، وانی صاحب کے احساس جرم کو اور بڑھا رہی تھیں۔
معاً وانی صاحب نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر جس عالیشان مکان کو بنوایا تھا، کو مڑ کرایک نگاہ دیکھا۔پوتی پوتے منہ پر ماسک لگا کر پہلے منزلے کے کمرے سے دادا کی جانب دیکھ رہے تھے اور ان بچوں کے پیچھے سر پر پلو لے کر ان کی دونوں بہو ئیں دکھائی دے رہی تھیں۔نچلے منزلے پر دونوں بیٹے اپنی ماں کے ساتھ دور کھڑے تھے۔
معلوم ہوتا تھا یہ کوئی عید کا دن نہیں بلکہ سوگ کا دن ہے اورموصوف اپنے ہی جنازے کو اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے لیے جا رہے ہیں۔وانی صاحب کے دماغ میں غم و افسوس کے جذبات کا ملا جلا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ان کی ننھی پوتی نے ان کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور بائے کہا۔ایک لمحے کے لیے انھیں لگا کہ گویا ان کے عالیشان بنگلے اور زندگی نے بھی ان کو الوداع کہہ دیا ہو۔وانی صاحب کی آنکھیں اشکوں سے بھر آئیں۔موصوف ایمبولینس میں جا کر بیٹھ گئے۔ان کی بیوی فوراً نیچے اتری، ڈیٹرجنٹ پاؤڈر، سینیٹائیزر اسپرے وغیرہ سے گھر کے ان راستوں کو پاک کیا، جہاں سے وانی صاحب گذرے تھے۔وانی صاحب کے جانے کے بعد پورے گھر کی تطہیر کی گئی۔سب نے گویا غسل توبہ کیا بلکہ غسل شکرانہ کیا کہ مصیبت ٹلی، اب ہم عید تو منا سکیں گے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ:
”من از بیگاں نگاں ہرگز نمی نالم کہ بامن ہر چہ کرآشنہ کر“(شکوہ ہمیں غیروں سے نہیں اپنوں ہی سے ہے، کہ لوگ آستین کا سانپ بن کر ڈستے ہیں)
وانی صاحب اسپتال میں مہینہ بھر قرنطینہ میں رہے۔ان کے دیگر اعضاء و افعال سلامت تھے، مگر کوڈ کی علامات ہنوز موجود تھیں۔ایک ماہ میں ایک بار بھی کوئی گھر سے ملنے نہیں آیا۔ہاں دن میں ایک دو بار بیوی کا فون آ جاتا تھا۔نیز محلے کے عزیز و اقارب خیر خیریت کے لیے فون کر دیا کرتے تھے۔ایک ماہ بعد ان کی طبیعت مزید خراب ہو گئی۔بیٹوں نے طبی عملہ سے کہاکہ انھیں آئی سی یو میں داخل کر دیا جائے ہم آن لائن پے منٹ کر دیں گے۔لا چارگی اور بے بسی کے عالم میں وانی صاحب لوگوں کو دیکھتے رہتے۔شاید کوئی غمگسار مل جائے۔شاید کوئی انھیں سہارا دے دے۔شاید کوئی انھیں مناسب طبی امداد پہنچا دے۔مگر ہاسپٹل میں تو اور بھی زیادہ نفسا نفسی کا عالم تھا۔جب بھائیوں نے سفارشی کال کروائے تو وانی صاحب کو ایک تاریک کمرے میں الگ رکھ دیا گیاتاکہ برائے نام دیکھ بھال کی جاسکے۔نرس اور ڈاکٹرس تو اس کمرے کے قریب بھی نہ جاتے تھے۔کبھی کوئی کورونا جنگجو، پی پی ای کٹ میں جا کر کچھ انجکشن اور دوائیں وانی صاحب کو ٹھوک آتا تھا۔آکسیجن کی کمی اور مناسب طبی سہولیات کی کمی مایوسیوں میں اضافہ کر دیا تھااور اب وانی صاحب کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں۔موصوف کو وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا۔ان کا کمرہ اب موت کا کنواں بن چکا تھا۔موت و حیات کی اس کشمکش سے وہ جانبر نہ ہو سکے بالآخراسی بے بسی، بے کسی اور بھوک کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
اب مسئلہ مرحوم کی آخری رسومات کا تھا۔بیٹوں نے اس مسئلہ کو بآسانی حل کر دیا۔کال کر کے ہاسپٹل کے طبی عملے سے گذارش کی کہ مرحوم کی نعش براہ راست ہاسپٹل سے قبرستان پہنچا دی جائے۔غرض مرحوم کی نعش،پلاسٹک کی کئی تہوں میں پیک کر کے بذریعہ ٹیپمو قبرستا ن روانہ کر دی گی۔جہاں ان کی قبر تیار کر دی گئی تھی۔مرحوم کو کچھ رضا کاروں نے قبر میں اتار دیا۔بیٹوں نے غائبانہ نماز جنازہ پر اکتفا کیا،اور مرحوم کی موت کو ان گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔بالآ خر وانی صاحب اس ظالم دنیا کے پنجوں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے معبود حقیقی کی جوار رحمت میں پہنچ گئے۔ جہاں نہ اپنوں کی بیگانگی اور رشتہ ستانی، نہ ماسک کی پابندی، نہ موت کا رقص، نہ لاک ڈاؤن جیسی ذہنی اذیتیں، نہ نسلی تعصبات۔بقول شخصی:
من کی دنیا میں نہ دیکھا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نے دیکھے میں نے شیخ و برہمن
ایک لمحہ کے لیے وانی صاحب کی جگہ اپنے آپ کو کھڑا کیجیئے۔اس لیے کہ وانی صاحب پر جو حالات آئے، وہ کسی بھی وقت آپ پر بھی آسکتے ہیں اور سارا غرور مال منال خاک میں مل جائے گا۔
؎سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
ضروری ہے کہ انسان ہر وقت آخرت کی تیاری میں لگا رہے۔مفلس، نادار، مریضوں اور بھوکوں کی مدد کرے۔دنیا داری میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ایک لمحے میں آدمی کی کمائی ہوئی جمع پونجی، وارثین کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔جو آپ سے اسی وقت تک محبت کریں گے، جب تک ان کی اغراض آپ سے وابستہ ہوں گی۔جہاں اغراض کی تکمیل نا ممکن نظر آئے گی وہ آپ کا ساتھ چھوڑ کر چل دیں گے اور آخرت میں تو بالکل بھی کام نہ آویں گے۔
اس مرتبہ عید جن حالات میں ہوئی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔حالات حاضرہ میں مایوسیوں کی گھنگھور گھٹاؤں کا اندازہ آپ ان سوال و جواب سے کر سکتے ہیں:
”کیا موسم کی تبدیلی کوڈ۔۹۱ کے پھیلاؤ کو کم کر سکتی ہے؟“
”نہیں!یہ مہلک وائرس بڑھتے ہوئے اور گھٹتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ بھی بڑھتا ہی رہتا ہے، جیسا کہ مشاہدات سے واضح ہے۔ ۱؎“بقول شخصی(تھوڑی ترمیم کے ساتھ):
یہ نغمہ فصل لالہ و گل کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں ’کرونا ہی کرونا‘
”گرم پانی سے غسل کر کے کورونا سے بچا جا سکتا ہے؟“
”جی نہیں!جسم کا عمومی درجہ حرارت 35.5Cسے 37Cتک ہی رہتا ہے، قطع نظر اس کے آپ کے غسل کے پانی کے انتہائی گرم ہونے سے آپ جل سکتے ہیں۔“۱؎
”بار بار نمکین پانی سے ناک کا دھونا اس مرض کی روک تھام کر سکتا ہے“
”نہیں!“۱؎
”دھوپ، سے یہ وائرس ختم ہو جاتا ہے“
”جی نہیں! یہ بے بنیاد دعویٰ ہے۔“۱؎
دعویٰ:”فاقہ، کرونا وائرس سے بچاتا ہے۔“
”نہیں! فاقہ کرونا وائرس کو جسم میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا۔“۱؎
”کوڈ۔۹۱ وبائی مرض کب ختم ہوگا؟“
”جی!مستقبل قریب میں اس کے ختم ہونے کے امکانات کم ہیں۔اس لیے کہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کے عالمی وبائی امراض، تین مرحلے (Waves)میں ختم ہوئے ہیں۔مانا جاتا ہے کہ یہ وبا ء ابھی دوسرے مرحلے میں ہے، تیسری موج ہنوز باقی ہے۔“ ۲
غرض اس قسم کے بے شمارمایوس کن سوالات اور دعوے ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اور دور حاضر کے سائنسداں ان کے جوابات دے رہے ہیں، جس کا خلاصہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً یہ ایک پر اسرا ر وائرس ہے۔جس کی ماہیت، تعدیہ کی طاقت،علاج، احتیاطی تدابیر ہنوز پہیلی بنی ہوئی ہے۔
حالیہ عید الفطر ایسے حالات میں آرہی ہے کہ اس وائرس نے سارے عالم میں تباہی مچائی ہے اور ہر طرف موت کا رقص نظر آرہا ہے وہیں اس کی وجہ سے بے شمار جرائم ہمارے معاشرے میں پنپ رہے ہیں، اخلاقی پستیاں اپنی تمام حدود کر پار کر چکی ہیں۔ضروری ہے کہ ان حالات میں ہم پڑوسیوں کا خیال رکھیں۔بیماروں کا خیال رکھیں۔بیماری سے لڑیں، بیمار سے نہیں۔تحفظی تدابیر اپنی جگہ ہے، مگر انسانیت کے تقاضے اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔اپنی دعاؤں میں فلسطین کے مسلمانوں کو بھی یاد کر لیں کہ وہ دوہری مصیبت کا شکار ہیں۔ایک کرونا دوسرے صیہونی طاقتیں۔غمگساری اور غمخواری کو اپنا شعار بنائیں۔کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ بے شمار وائرس مثلاً رشوت ستانی، چوری، اقباء پروری سے اجتناب کریں کہ یہ کرونا سے بھی زیادہ خطرنا ک ہیں۔بقول شخصی:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، پھرتے ہیں بن میں مارے مارے
میں تو بندہ اس کا بنوں گا، خدا کے بندوں سے جس کو پیار ہو گا
حوالہ جات:
۱۔سی ایس آئی آر(کاؤنسل آف سائینٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ)۔کوڈ ہینڈ بک۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کمیونیکیشن اینڈ انفارمیشن ریسورسیز۔نئی دہلی، مطبع 2020۔
۲۔آیوش میٹنگ بتاریخ 08.05.2021۔ بعنوان
“The Declining Love for Mathematics in Kashmir: A Wake-Up Call”
Dr. Azham Ilyass “Mathematics is the most beautiful and most powerful creation of the human spirit.”...
Read more