سرینگر/11مئی
عالمی ادارہ صحت WHOنے کہا ہے کہ بھارت میں کووڈ 19کی صورتحال ابتر ہونے کے بعد خودکشیوں کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ عام حالات میں بھی یہاں بہت خوکشی کے واقعات رونما ءہوتے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، دس ہزار سے زائدبھارتی ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔ یہ تعداد بھی حقیقی تعداد سے کم ہے کیوں کہ یہ تعداد وہ ہے جو خبروں میں آجاتی ہے ورنہ گاو ¿ں دیہات اور دور دراز علاقوں میں تو نہ جانے کیا کچھ ہوجاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں طلبہ کی جانب سے حصول تعلیم میں ناکامی، قرضہ کا بوجھ اور رشتہ ازدواج میں نابرابری اور پیارو محبت میں دھوکہ دہی جیسے حالات کی وجہ سے بھارت میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔نیوز ایجنسی کے مطابق بھارت میں کووڈ 19کی صورتحال ابتر ہونے کے بعد یہاں خود کشی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ کووڈ کی دوسری لہر کے نتیجے میں عام لوگ زہنی پریشانیوں میں مبتلاءہوچکے ہیں جس کی وجہ سے غریب طبقہ خود کشی کرنے کی طرف راغب ہورہا ہے ۔ خودکشی ایک انتہائی اقدام ہے۔ لوگ خودکشی کا سنتے اور افسوس کے ساتھ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہماری زندگی کے عمومی ناگفتہ بہ حالات اور نشیب و فراز طلاق، موبائل یا پرس کا چھینا جانا، کوئی قدرتی آفت، جاب کا چھوٹ جانا، کسی پیارے کی موت وغیرہ ہمیں جسمانی، ذہنی یا نفسیاتی مسئلے میں مبتلا کرسکتے ہیں؟لوگ اپنے روزمرہ اسٹریس، ڈپریشن، غصے، جھنجھلاہٹ، چڑچڑے پن وغیرہ کو معمولی نہ سمجھیں؛ کیوں کہ یہ معمول کی منفی جذباتی کیفیات ہی آدمی کو خودکشی تک لے جاسکتی ہیں۔ کم ازکم اسے نفسیاتی مریض تو ضرور بنادیتی ہیں۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق روزمرہ کے کشیدہ حالات و تجربات بھی ہمیں نفسیاتی یا ذہنی بیماری میں مبتلا کرسکتے ہیں اور اگر اس کا مناسب تدارک نہ کیا جائے تو معاملہ، خدا نخواستہ، خودکشی تک جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق شعبہ نفسیات کے سوسن چارلس نے کی۔ اس مطالعے میں یہ جائزہ لیا گیا کہ جن لوگوں کو روزمرہ کے دباو اور منفی واقعات سے سابقہ پڑا، اگلے دس برس بعد ان پر اس پر کیا ذہنی، جذباتی یا نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے۔ اس تحقیق سے اس پہلو کو جاننے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اوسط درجے کے وہ منفی اثرات جو ہم روزمرہ واقعات و حالات سے لیتے ہیں، آگے چل کر کیوں کر اور کتنا ہماری شخصیت و صحت پر منفی نتائج مرتب کرتے ہیں۔اس تحقیق کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اصل مسئلہ زندگی کے اوسط روزمرہ واقعات کا پیش آنا نہیں، بلکہ ان واقعات و تجربات پر ہمارا ردِعمل سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج آپ کے ساتھ جو منفی واقعہ پیش آیا ہے، اگر اس پر آپ کا ردِعمل درست نہیں ہوگا تو اگلے پانچ، دس یا پندرہ برس بعد آپ کسی نفسیاتی یا ذہنی بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ خواہ روزمرہ واقعات کتنے ہی معمولی ہوں، ان پر آپ کا ردِعمل اگر سخت ہوگا تو آپ نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں۔اس سلسلے میں، ماہرین درج ذیل اقدامات تجویز کرتے ہیںکہ خود کو موجودہ لمحے میں رکھنے کا ہنر سیکھیے۔ اس کےلیے ”مائنڈ فلنیس“ کی مختلف مشقیں پوری دنیا میں ماہرین تجویز کرتے ہیں، کیوں کہ سائنسی بنیادوں پر اب مائنڈ فلنیس کی افادیت نہایت واضح ہے۔ چنانچہ پوری دنیا میں اب بچوں سے لے بڑی عمر کے خواتین و حضرات کو ہر شعبہ زندگی میں مائنڈ فلنیس کی مشقیں سکھائی اور کرائی جارہی ہیں۔چھوٹے چھوٹے واقعات اور معاملات کو سر پر سوار کرنے اور انہیں جی کا جنجال بنانے کی عادت چھوڑ دیجیے۔ جو لوگ معمولی سے نقصان اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے جھگڑنے کھڑے ہوجاتے ہیں یا پھر بات کا بتنگڑ بنانے میں ماہر ہوتے ہیں، وہ اکثر عمر کے پانچویں، چھٹے یا ساتویں عشرے میں نفسیاتی یا ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ روزانہ دس سے پندرہ منٹ ایروبک ایکسرسائز (سائنس کو بہتر بنانے والی ورزشیں) کیجیے۔ اس کےلیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں۔ آپ گھر پر بھی اس طرح کی ہلکی پھلکی ورزش کرسکتے ہیں جو فائدہ دیتی ہے۔ جسمانی کسرت، ذہنی و جذباتی کیفیت پر براہِ راست گہرے مثبت اثرات ڈالتی ہے۔اب کی بار اگر آپ کو روزمرہ کا اسٹریس یا ڈپریشن ستائے تو اسے ہلکا نہ لیجیے اور نہ اسے سر پر سوار کیجیے۔ ابھی سےاس کے تدارک کی تدابیر کیجیے، کیوں کہ یہی دانش مندی ہے۔
وادی کشمیر میں وقف اثاثوں کی صحیح نگرانی اور ترقی ناگزیر
وقف املاک نہ کسی مذہبی لیڈر کی ملکیت ہوتی ہے اور ناہی کسی خاص انجمن کی ملکیت ہے بلکہ یہ...
Read more