سرینگر ;223;30جنوری ;223; کے پی ایس
عالمی سطح پر اخباری صنعت جو صحافت کےلئے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اورکروڑوں لوگوں کے روزگار وعزت ووقار کا ذریعہ ہے ۔ جموں وکشمیر میں پرنٹنگ مواد کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ سے اخباری مالکان اورغیر تسلیم شدہ نیوزپورٹلز ،سماجی ویب ساءٹس کی بھرمارکی وجہ سے یہ صنعت زوال پذیر ہورہی ہے اور اس صنعت کا مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے ۔ اخبارات کی اشاعت پرنٹنگ پریس پر منحصر ہے لیکن پرنٹنگ پریس کے موادکی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پرنٹنگ پریس مالکان اور اخباری مالکان پریشان اور تذبذب کے شکار ہوئے ہیں ۔ کشمیر پریس سروس کو ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ پرنٹنگ پریس کے مواد بشمول کاغذات کی قیمتوں میں 20 فیصدی ،کاٹریج ( میل ) میں 15فیصدی ،پلیٹس میں 10فیصدی ،کمیکلز میں 10سے12فیصدی اضافہ ہوا ہے جو اخبارات کے مالکان کےلئے بوجھ بنا ہوا ہے اور آمدنی قلیل ہونے کی وجہ سے اب وہ اخبارات کی اشاعت کو ممکن بنانے سے قاصر رہتے ہیں اورجو اخبارات شاءع ہورہے ہیں وہ پرنٹنگ پریس مالکان کے قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں ۔ پرنٹنگ پریس مالکان اس اعتبار سے ان کے اخبارات چھپاتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس بقایا رقم وصول ہوجائے ۔ اخباری صنعت جو محکمہ اطلاعات کے اشتہار ات کی وجہ سے ہی رواں دواں تھی لیکن اب محکمہ ہذا نے اشتہارات کی تقسیم کاری میں تفاوت کا سلسلہ شروع کیا اور ان اشتہارات سے ایک تو اخبارات کے تمام اخراجات پورا نہیں ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ اشتہارات مناسب نہیں ملتے ہیں ۔ دوسرایہ ہے کہ اخبارات میں شاءع ہوئے اشتہارات کی بلیں بھی مہینوں ہا دفتر میں رکی پڑی ہیں ۔ ان کی واگذاری کےلئے کو ئی اقداما ت نہیں اٹھائے جارہے ہیں اور اشہارات کی قیمتیں بھی مہنگائی کے حوالے سے ناکافی ہیں ۔ جبکہ محکمہ نے ایسے لوازمات رکھے ہیں کہ اخبارات کو روزانہ بنیادوں پر نکالنے کےلئے کافی مالیات کی ضرورت ہے لیکن پرنٹنگ مواد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور اخبارات کی ترسیل میں کمی کی وجہ سے اخباری مالکان سکت نہیں رکھتے ہیں ۔ اب اخباری مالکان پرنٹنگ پریس مالکان کے پاس وینٹی لیٹرکی طرح کے فیض وکرم سے سانس لیتے رہتے ہیں جبکہ پرنٹنگ مواد میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے اب پرنٹنگ پریس مالکان کی مالی سکت بھی جواب دینے لگی ہے جس اخباری صنعت کو خطرہ لاحق ہے ۔ اب اس کا ایک پہلو سماجی ویب ساءٹس یا غیر تسلیم نیوز پوٹلز کی صحافت میں بے جا مداخلت صحافتی اقدار کی پامالی کاسبب بنے ہوئے ہیں اور اس کا براہ راست اثر اخبارات کی ترسیل پر مرتب ہوا ہے ۔ اخبارات کی ترسیل کی کمی بھی اس صنعت کےلئے کافی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے کیونکہ اخبارات کے مالکان کےلئے ترسیل بھی مالی بحالی کا ایک اہم ذریعہ تھا ۔ جو معدوم ہونے جارہا ہے جبکہ سماجی ویب ساءٹس اور نیوز پوٹکز بے لگام ہے جس سے جھوٹ کا بول بالا ہوا ہے اوراس جھوٹی صحافت نے لٹیروں اوچوروں کےلئے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بے بنیاد اور حقیقت سے بعید خبریں سامنے آتی ہیں جن باعزت افراد کی عزت بھی داءو پر لگ جاتی ہے جبکہ ذرایع ابلاغ کا معتبر وسیلہ خبارات قارئین کےلئے علم و آگہی کا ایک عظیم تحفہ تھا ۔ لیکن اخبارات کی ترسیل میں آئے روز کمی آنے کے باعث مطالعے کاذوق وشوق ختم ہونے لگا ہے ۔ اس سے پہلے یہ صنعت جو ہزاروں افراد کے روزگار کا اہم وسیلہ ہے تباہ ہوجائے سرکاری سطح پر لاءحہ عمل تریب دیا جائے ۔